تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو ‘تین تین‘چارچار‘ سے نکاح کرلو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرویا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہ ہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لئے زیادہ قریب ہے ‘‘
اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل عرب یتیموں کے حقوق کی بالعموم اور خواتین یتیموں کے حقوق کی بالخصوص حفاظت کا لحاظ نہ رکھتے تھے۔ اسلام نے دونوں کے حقوق کی حفاظت کا بالعموم اور خواتین یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا بالخصوص حکم دیا ہے۔
حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے اس ارشاد باری تعالیٰ کے متعلق پوچھا:
{وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی }
تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
’’بھتیجے! یہ یتیم لڑکی اپنے ولی کی کفالت میں ہوگی۔ اس کے مال میں شریک‘ ولی کو اس کا مال اور جمال پسند آئے‘ اور وہ اس سے اس کا مہر انصاف سے ادا کئے بغیر نکاح کرنا چاہے تو اس سے روکا گیا ہے کہ اگر نکاح کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ اور انہیں اعلی مہر عطا کریں نہ کہ دیگر عورتوں جیسا مہر‘‘۔
اگر انصاف نہ کرسکے تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے:
یہ بات بجا ہے کہ اسلام نے مرد کو چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے‘ جبکہ عورت کو فی الوقت ایک ہی شادی کرنے کی اجازت ہے۔مغرب زدہ طبقہ اسے ناانصافی سے تعبیر کرتا ہے اور مرد کو بھی صرف ایک ہی شادی کی اجازت دینے کا خواہاں ہے۔
علمائے مسلمین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ایک سے زائد خواتین سے شادی کرنا جہاں مردوں کے حق میں مصلحت خدا وندی ہے‘ وہیں مردوں سے پہلے عورتوں کے حق میں مصلحت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض ناواقف لوگ یہ خیال کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے چار شادیوں کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ بات یہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اسی لیے تو فرمایا کہ اگر تمہیں خطرہ ہو کہ تم انصاف نہ کرپاؤ گے تو صرف ایک ہی عورت پر اکتفا کرو۔
دیکھئے! اسلام نے عورت کے حقوق کا کس قدر خیال رکھاہے۔ کسی بھی