دیاجاتا ہے۔ لیکن انسان پھر بھی نہیں سوچتا۔
جذبات کا ریلا آتا ہے اور اس کی زندگی کو مفلوج کر جاتا ہے۔ حالانکہ اس ریلے کا سب سے بڑا معاون خود انسان کی اپنی ذات ہوتی ہے۔
ذرا تصور کیجئے! اگر آپ لمحہ بھر کے لیے اپنے غصے کو پی جاتی ہیں تو آپ کو معلوم ہے کہ قرآن آپ کو اس کا کیا صلہ ملنے کا وعدہ سناتا ہے؟نہیں تو سنیے:
رب کی مغفرت اور آسمانوں و زمینوں کی وسعت کے برابر جنت کا پروانہ۔ اس سب سے بڑھ کر …آپ سے اپنی محبت کا اعلان کرتا ہے۔
ذرا سوچیے تو سہی! کیا گھاٹے کا سودا ہے؟!
اچھی عادات اپنایئے!
ہم اکثر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ اچھی عادات اپنانی چاہئیں اور بری عادات کو چھوڑنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ عادت کیسے بنائی جا سکتی ہے؟
ہمیں ایک خدشہ لاحق رہتا ہے کہ عادت انسان کی فطرت ثانیہ ہوتی ہے جو خود بخود Develope ہوتی ہے۔ انسان کی کوئی ذاتی کوشش اس میں کارفرما نہیں ہوتی۔
حالانکہ ایسی بات نہیں بلکہ کسی چیز کے بار بار تکرار کرنے ہی کو عادت کہتے ہیں۔ جس اچھی بات کو اختیار کرنا ہو اسے بار بار کرتی رہیں اور جس بری بات کو ترک کرنا ہو اس کو بار بار ترک کرتی رہیں۔…عادت بن جائے گی۔
یہی کلیہ اپناتے ہوئے آپ نئے ماحول میں جا کر اپنی عادات تبدیل کر سکتی ہیں۔ اپنی پسند دوسروں کی پسند پر قربان کر سکتی ہیں۔
آپ اس ماحول میں جو نئی چیز دیکھیں ،اسی کے موافق سوچنا اور غور کرنا شروع کر دیجئے ‘وہ آپ کے لیے قابل قبول اور پسندیدہ بنتی چلی جائے گی۔
اپنے ذہن کو اس کی موافقت میں مختلف دلائل د ے کر قائل کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہاں اگر غیر مفید اور نقصان دہ پہلو سامنے آ جائے تو اس میں اس انداز سے محنت کیجئے کہ اس کی افادیت پیدا ہو جائے اور نقصانات کم سے کم ہوتے چلے جائیں۔
بس اتنا سا کام ہے!