پوچھی تو کہنے لگی:
ابا جان! میرے اور میرے خاوند کے درمیان کوئی بات چل رہی تھی‘ میرے منہ سے ایسی بات نکل گئی جو اسے ناگوار گزری‘ جب میں نے ان کے غصے کو دیکھا تو میں نادم ہوئی اور میں نے کہا:
اے میرے سردار! مجھے معاف کر دیجئے‘ آپ نے جو کلمہ میرے منہ سے سنا ہے مجھ سے غلطی ہو گئی میں دوبارہ ایسانہ کروں گی۔
تو اس نے مجھ سے بولنے سے انکار کر دیا اور اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا۔ میں حیراں سرگرداں اس کے گرد گھومنے لگی‘ حتی کہ وہ ہنس پڑا اور مجھ سے راضی ہو گیا۔
مجھے اندیشہ ہے کہ اللہ پاک میرا ان لمحات پر مواخذہ کر لیں جن میں دوران غصہ اس کے آنسو جلے۔
والد نے کہا:
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے‘ اگر تو اس کے تجھ سے راضی ہونے سے پہلے وہ مر جاتا تو میں تجھ سے کبھی راضی نہ ہوتا۔
تجھے معلوم ہے کہ جس عورت کا خاوند اس سے ناراض ہو وہ تورات‘ زبور‘ انجیل اور قرآن سب ہی میں ملعون قرار دی گئی ہے۔ اس کے لیے سکرات موت کا لمحہ شدید ہو جاتا ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے۔
غصے کے وقت اپنے خاوند کو چھوڑ دیجئے‘ ان سے اس دوران کوئی گفتگو نہ کیجئے‘ انہیں تسلی کا موقع دیجئے‘ مناسب وقت میں غصے کا سبب پوچھیے تاکہ آپ آئندہ اس سے احتراز کر سکیں۔
سکون سے سوچئے! کہ غصے کے اسباب کیا تھے؟ تاکہ آپ آئندہ ان سے احتراز کر سکیں جو غلطی آپ سے صادر ہوئی ہے اسے اپنی طرف ہی منسوب کیجئے‘ اپنے عیوب پر نگاہ ڈالتے ہوئے انہیں دور کر نے کی کوش کیجئے تاکہ آئندہ ایسی غلطی صادر نہ ہو۔
خود اعتمادی پیدا کیجئے:
باپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والا بچہ بڑا ہو کر بھی اپنے اندر بچگانہ عادات لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بچے نے در در کی ٹھوکریں کھا کر چلنا سیکھا ہو تو اس کے وجود میں خود اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے اور وہ زندگی بھر خوشحال رہتا ہے۔