تھے کہ ایک خیمہ کے اندر سے ایک عورت کو کہتے سنا:
الا طال ہذااللیل وازور جانبہ
ولیس الی جنبی خلیل الاعبہ
فواللہ لولا اللہ تخشی عواقبہ
لزلزل من ہذاالسریر جوانبہ
مخافۃ ربی و الحیاء یعفنی
واکرام بعلی ان تنال مراتبہ
’’ہائے! یہ رات کتنی دراز ہو گئی اور وہ رخصت ہو گیا‘ میرے پہلو میں میرا خلیل بھی نہیں کہ میں اس سے کھیلوں‘ اللہ کی قسم !اگر نتائج کا ڈر نہ ہوتا تو اس تخت سے جوانب سرک جاتے‘ اپنے رب کے خوف‘ حیاو پاک دامنی اور احترام خاوند کے پیش نظر ایسا نہیں ہوا کہ مراتب کا حصول اسی سے ممکن ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ جان گئے کہ کسی مسلمان سپاہی کی بیوی ہے جو کئی ماہ سے میدان جنگ میں ہے اور اس کی عفت و عصمت اور خشیت خداوندی نے اسے تنہاء رکھا ہوا ہے۔ تو آپؓ نے حکم صادر فرمایا کہ سپاہی میدان جنگ میں ایک متعین مدت تک ہی رہے پھر اپنے گھر واپس پلٹے تاکہ حقوق زوجیت ادا کر سکے۔ پھر میدان جہاد پلٹ جائے تاکہ دین اور قرآن کا حکم بجا لا سکے۔
نیک عورت…قرآن کی نظر میں:
قرآن نے نیک عورت کی صفات یوں بیان کی ہیں:
{فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ} (سورۃ النساء: ۳۴)
’’پھرجو عورتیں نیک ہیں‘وہ تابعدار ہیں مردوں کی پیٹھ پیچھے،اللہ کی نگرانی میں(ان کے حقوق کی)حفاظت کرتی ہیں‘‘
قرآن کی نظر میں نیک عورتیں وہ ہیں جو عاجزی و انکساری والی‘ خاوندوں کی اطاعت کرنے والی‘ ان کے حقوق ادا کرنے والی‘ اور ازدواجی تعلق کو گندگی اور گناہ سے محفوظ رکھنے والی ہیں۔ میاں بیوی کے مابین خلوت میں جو گفتگو اور سرگوشی ہو اسے بطور امانت دلوں میں جگہ دینے والی ہوں‘ اس شریعت کی حدود کی پاسداری کرنے والی