اپنے محسن سے محبت کرنے لگتا ہے،اور یہ مشاہدے سے ثابت ہے؛ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سب کی نظروں میں محبوب بن جائے اور ہدیہ اس سلسلے میں بہترین ممد ومعاون ہو سکتا ہے۔
اسماعیل بن ابان کہتے ہیں کہ حسن بن عمارۃ کو خبر ملی کہ اعمش اس کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں تو حسن بن عمارۃ نے ان کی طرف کپڑوں کا ایک جوڑا بھیجا ۔
اعمش اس کے بعد ان کی مدح سرائی کرنے لگے۔اس تبدیلی کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیثمہ نے عبد اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ دل فطرتی طور پر احسان کرنے والے سے محبت کرتے ہیں اور برائی کرنے والے سے نفرت کرتے ہیں۔
پر خلوص ہدیہ…تھوڑا بھی بہت:
ہدیے کی قدر و منزلت قلت اور کثرت کے اعتبار سے نہیں ہوتی،بلکہ اس میں تو خلوص کو دیکھا جاتاہے۔جس قدر اس میں خلوص زیادہ ہوگا اسی قدر وہ محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
عقلمند کو چاہئے کہ وہ چیزوں کو وقت کے تقاضے کے مطابق استعمال کرے۔تقدیر کے فیصلے پر راضی رہے اور جو مل گیا ہواس کے علاوہ کی تمنا نہ کرے اگر اس کے پاس کوئی گھٹیا چیز ہو تو اس کو کم سمجھ کر خرچ کرنے سے نہ رکے کیونکہ بخل اور خرچ کرنے سے رکنا بڑے عیب کی بات ہے۔
انسان کسی چیز کو حقیر سمجھتاہے تو اس کو خرچ کرنے سے روک لیتا ہے ،لہذا کسی بھی چیز کو گھٹیا نہیں سمجھنا چاہئے۔
اما م عبد اللہ بن مبارک ؒ کے بڑے خوبصورت اشعار پیش نظر ہیں:
ما ذاق طعم الغنی من لا قنوع لہ
و لن تری قانعــا ما عاش مفترقا
والعرف من یاتہ یحمد عواقبہ
ما ضاع عرف ولوا ولیستہ حجرا
’’جس کے پاس قناعت نہ ہو وہ استغناء کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا،اور قانع کو تم تا حیات ہرگز فقیر نہ پاؤ گے۔عرف عام(عوام الناس)اس کے انجام کے حسن کی تعریف و توصیف کرتا ہے ،اگر تم اس کو پتھر بھی دو گے تو وہ اس کو بھی ضائع نہ کرے گا‘‘