دیا ہو؟ چنانچہ ہم یہ بات کہنے میںحق بجانب ہیں کہ جو آدمی نکاح نہ کرے وہ اللہ کی عطا کردہ کھیتی اور بیج کو ضائع کرنے والا اور اس مقصد کے لیے پیدا کردہ اعضاء کو تلف کرنے والا ہے اور فطرت خداوندی کا وہ مجرم ہے۔
چنانچہ اللہ کی پسندیدہ چیز کو مکمل کرنے والا نکاح ہے اور جس چیز کے ضیاع کو اللہ نے ناپسند کیا ہے‘ نکاح سے اعراض اسی کو ضائع کرنا ہے۔ چنانچہ جو کوئی نکاح نہ کرے تو وہ آدم ؑ سے لے کر اس کی اپنی ذات تک جو وجود کی بقاء ہے اسے ختم کرنے والا ہے اور وہ دم بریدہ ہو کر مرے گا…کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہو گی۔
حضرت زکریا ؑ جو بوڑھے ہیں لیکن بشریت کے تقاضے کے مطابق ان میں اولاد کی چاہت پیدا ہو رہی ہے اور وہ تخلیق خداوندی میں دوام کو چاہ رہے ہیں‘ یہی وہ رغبت ہے جو عابد زاہد لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتی ہے ‘جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت خداوندی کے لیے وقف کر رکھا ہوتا ہے۔
{ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہُ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ} (سورہ آل عمران:۳۸)
’’زکریا نے وہیں اپنے رب سے دعا کی ،کہا :اے میرے رب!مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما،بے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘
ان ہی کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
{رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ}
(سورہ الانبیاء: ۸۹)
’’اے میرے رب!مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے‘‘
یہی وہ فطرت خداوندی ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے اور اس میں نسل انسانی کے بقاء اور ارتقاء کی حکمت کو ملحوظ رکھا ہے۔
دوسری وجہ:…حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی کثرت کو پسند کریں گے اور دیگر امتوں پر فخر کریں گے۔
تیسری وجہ… صاحب اولاد کے فوت ہو جانے کے بعد اس کی صالح اولاد اس کے لیے دعا کرے گی۔