جنس مخالف کے بارے لوگ اپنے جذبات کو جانتے ہیں۔ دونوں جنسوں کا باہمی تعلق ان کے اعصاب اور جذبات کو مشغول رکھتا ہے‘ ان کی باہمی توجہ اور مختلف نوعیت کے جذبات ان کی تحریک کو کنٹرول کیے رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اس اللہ کی قدرت کو بہت کم یاد رکھتے ہیں کہ جس نے انہی کے نفوس سے انہی کے لیے جوڑوں کو پیدا کیا۔ اور یہ جذبات اور احساسات ان کے نفوس میں رکھے۔ اور اس تعلق میں دلی سکون و راحت‘ معاشی استقرار‘ قلوب کا باہمی انس و پیار‘ اور مردو زن کا باہمی اطمینان رکھا۔
لطیف قرآنی تعبیر نے اس کی تصویر کشی اس انداز میں کی ہے کہ جیسے اسے قلوب کی اور احساس کی گہرائیوں سے سینچا گیا ہو:
{وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ} (سورۃ الروم : ۲۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمھارے لئے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمھارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی،جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں‘‘
یہ سراسر خالق کی حکمت ہے کہ اس نے ہر جنس کو دوسری کے موافق پیدا کیا۔ وہ اس کی فطری حاجتیں(نفسانی‘ عقلی اور جسمانی) کو پوری کر سکے۔ اسے اس کے پاس راحت اور اطمینان حاصل ہو اور وہ دونوں اجتماعی طور پر سکون و کفایت اور مودت و رحمت پا سکیں، کیونکہ ان کی نفسانی‘ عصبی اور عضوی ترکیب میں یہ بات ملحوظ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خواہشات کی تکمیل کر سکیں اور بالآخر ایسی زندگی کو وجود میں لالنے کے لیے ملاپ کر سکیں کہ جو نئی نسل کی نمائندہ ہو۔
عورت کا وجود مرد کے وجود سے ہے۔ جعل لکم من انفسکم ازواجا۔ پس عورتیں مردوں کا جز ہیں ‘ کوئی اور جنس نہیں۔ یہی خدا کی وہ فطرت ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا:
{ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا} (سورۃ الاعراف: ۱۸۹)
’’وہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیااور اسی سے اس کا جوڑا بنایاتاکہ اس سے آرام پائے‘‘