کہ وہ بیوی کا نان نفقہ برداشت کر سکیں۔
یہ معزز آدمی اور محترم معاشرے کی امتیازی خصوصیت ہے۔ مغربی تہذیب نے جو ہمیں شخصی آزادی کی نعمت عطا کی ہے وہ مرد کو اجازت دیتی ہے کہ وہ مالی قدرت کے باوجود بغیر شادی کے رہے۔ اور جنسی تسکین کے لیے جو کچھ اسے باسہولت میسر آئے اسی پر اکتفا کرے۔ یہ ایک قسم کی جنسی احتیاجی ہے‘ مال و متاع کی بنا پر کچھ نوجوان اس کا رخ کرتے ہیں اور ان کا مقصد ازدواجی ذمہ داریوں سے بھاگنا اور کھانے پینے اور لباس کے Status کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جب بال بچے ہو جائیں تو وہ ان کی قربانی دیں۔
اگر اس گھٹیا سوچ کے بار ے میں ہم دینی حکم سے قطع نظر کریں اور عقل اورمعا شر تی فطرت سے فیصلہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ انانیت‘ مادی اعزاز اور روحانی آئیڈیالوجی کے خاتمے کی وجہ سے ہے۔ اگر معاشرہ ہی اپنے افراد کو اس بات کی اجازت دے دے کہ مادی خواہشات مقدس فضائل سے بہتر ہیں اور مال اور اس سے متعلقہ بدنی خواہشات عظمت و شرافت‘ عفت و عصمت سے بالاتر ہیں تو پھر اس معاشرے سے کس بھلائی کی توقع ممکن ہے؟
اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبکہ ان میں سے ہر ایک نے اپنی انانیت کو اپنا خدا و معبود بنا رکھا ہو۔
بھلا وہ اپنے وطن کے لیے کیسے مفید ہو سکتے ہیں جبکہ عیاشی اور خواہشات نفسانیہ نے انہیں کمزور کر دیا ہو؟ اور اس کمزوری نے انہیں دنیاوی زندگی کی عبادت کے سپرد کر دیا ہو۔ ان کے وطن کے لیے بھلائی کی امید اس وقت کیسے کی جا سکتی ہے کہ جب طاقتور دشمن ان پر دھاوا بولے تو وہ پہلے ہی صدمے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں‘ پہلے ہی حملے میں قوم پسپا ہو جائے اور دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔
معلوم نہیں؟ کہ دوسری عالمی جنگ میں فرانس نے جرمنی کے آگے گھٹنے کیوں ٹیک دیئے؟ خواہشات نفسانیہ کی وجہ سے یا شخصی آزادی کی وجہ سے؟ حتی کہ پیٹن کو کہنا پڑا:
’’ اپنی غلطیوں کو تولو‘ وہ ترازو میں بہت وزنی ہوں گی‘ تم اولاد کے خواہش مند نہ تھے‘ خاندانی نظام کو تم نے چھوڑا‘ عزت و شرافت اور عام روحانی اقدار کو خیرآباد کہا‘ اور شہوات کے پیچھے یوں چل پڑے کہ ہر جگہ انہیں کا سراغ تلاش کرنے لگے‘ ارے اب دیکھو! کہ یہ خواہشات