(آل عمران: ۱۹۵)
’’چنانچہ ان کی دعا کو ان کے پروردگار نے قبول کر لیا۔ کیونکہ میں تم میں سے کسی کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت‘ ضائع نہیں ہونے دیتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کا جزء ہو‘‘
اس آیت سے قبل اللہ پاک نے اہل ایمان کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے‘ ان اہل ایمان نے خوب دل کھول کر دعائیں کیں ۔ ان کی دعائیں معمولی دعائیں نہ تھیں بلکہ ان کی دعائیں بڑی مومنانہ تھیں۔
اگر قرآنی سیاق و سباق میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعائیں مردوں نے کی تھیں مردوں ہی نے کہا تھا:
{رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا} (سورہ آل عمران:۱۹۳)
’’اے ہمارے رب ہم نے ایک پکارنے والے سے سنا جو ایمان لانے کو پکارتا تھا کہ اپنے رب پہ ایمان لاؤ سو ہم ایمان لے آئے‘‘
یہ مردانہ دعا ہے۔ پیش پیش رہنے والے اور مردار نہ وار لبیک کہنے والے مرد ہی تھے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب ان دعاؤں کی قبولیت اور ان پر اجر و جزا کا ذکر کیا ہے تو صرف مردوں کا ذکر نہیں کیا، بلکہ خاص طور پر عورتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
اب یہاں غور کیجئے! اگر کوئی ادیب ہوتا‘ کوئی انشاء پرداز ہوتا، کوئی ماہر نفسیات ہوتا‘ کوئی عورتوں کا بڑا حامی اور ان کی آزادی کا محرک ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ یہاں عورتوں کو فراموش کردیتا۔
کیونکہ یہاں موقع بھی نہ تھا‘ ساری دعائیں مردوں نے کیں‘ سارے کام مردوں کے تھے‘ مرد ہی پیش پیش تھے، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت دیکھئے ‘وہ خالق ذکورو اناث دونوں جنسوں کا خالق ہے‘ دونوں پر اس کی یکساں شفقت کی نظر ہے۔ اس ذات نے جب
(اِنِّیْ لاَ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ)
کہا تو جواب پورا ہوگا تھا لیکن ایک دم سے عورتوں کو یاد فرمایا اور ان کو شرف بخشتے ہوئے فرمایا:
(مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی)
یہاں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ رحمت الٰہی اور بخشش الٰہی میں مساوات کامل ہے اس میں کوئی تحفظ نہیں۔ کسی قسم کا