کر نہیں پاتے ۔ لیکن حقیقت یہی ہوتی ہے ۔
یہی چیز انہیں سب سے پہلے دلہن کی عیب جوئی پر مجبور کرتی ہے تاکہ وہ اس کی اہمیت کو گھٹا سکیں اور دلہے کی نظروں میں اسے جھکا سکیں۔ چند دن گزرنے کے بعد کوئی تو اس کے ناک نقشے پر اعتراض کرتاہے ‘ کوئی جہیز اور زیور میں کیڑے نکالنے لگتاہے‘ اور کسی کو ان دو دنوں میں ہی اس کی طبعیت اور مزاج کی خرابی دکھائی دینے لگتی ہے۔
دلہن کا کامل بھروسہ دولہا پر ہوتاہے‘ وہ یہ خیا ل کرتی ہے کہ اس کے شوہر کی آمدنی پر گھر والوں کا بہت کچھ دار و مدار ہے ۔لہذا اس کا سہارا جس کو حاصل ہوگا ‘مضبوط سہارا ہوگا‘ یوں دو محاذ قائم ہوجاتے ہیں اور حقوق کی جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔
اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ دلہن میں یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ ڈولی سے اترتے ہی یہ خیال دل سے نکال دے کہ وہ غیر گھر میں قدم رکھ رہی ہے۔ اسے ذہن میں یہ وسوسہ بھی نہیں لانا چاہئے کہ وہ جن لوگوں کے درمیان جارہی ہے وہ یقینا اس کے ساتھ ناروا سلوک رکھیں گے ۔وہ اس کی بد گوئی اور مخالفت کریں گے ۔
اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ تمام انسانوں کی فطرت یکساں نہیں ہوتی ‘مزاج یکساں نہیں ہوتے ۔ہوسکتا ہے کہ سسرال والوں میں سے کوئی تنگ مزاج بھی ہو ۔آپ اپنے مد نظر اس بات کو رکھیں کہ آپ نے ان کی اچھائیوں کو لینا ہے ‘برائیوں سے چشم پوشی کرنی ہے ۔
آپ ان کے کسی ناپسندیدہ سلوک کا جواب ناپسندیدہ سلوک سے نہ دیں ۔بلکہ ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ان کے ساتھ خلوص اور محبت کا سلوک کریں ۔ آپ کا یہ سلوک انہیں اپنی عادات بدلنے پر مجبور کردے گا۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ سسرال کو قطعاً غیر گھر تصور نہ کیا جائے ۔ کیونکہ آپ اسی کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کا عہد کر چکی ہیں اور اسی عہد نے آپ کو ایک ذمہ دارانہ حیثیت دے دی ہے ۔ یہ گھر تو وہ ہے جہاں آپ کو اپنی پوری زندگی گزارنی ہے ‘یہاں آپ نے اگر کسی کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا تو دلوں میں میل بیٹھ جائے گا‘ پھر یہ منافرت گھر پکڑ لے گی۔