کی اشتعال انگیزی کی حرارت کا بڑھنے کا انتظار نہ کیجئے، بلکہ فورا اپنے عمل کی وضاحت کر کے اس کی غلط فہمی کو دور کیجئے۔دوران گفتگو آپ کے لہجہ میں نہ تو درشتگی ہونی چاہئے اور نہ ہی طنز کی کوئی جھلک دکھائی دے ۔
دوران گفتگو اپنی زبان کو ہر ممکن حد تک کنٹرول کیجئے ‘آپ کی زبان سے کسی لمحے ان کے لئے ـ’’تم ‘‘کا لفظ نہیں نکلنا چاہئے ۔
زبان کی بے اعتدالی:
عورت کی ازدواجی زندگی کی ناکامی اور بدنامی کی اہم وجہ زبان کی بے اعتدالی اور بے ہودگی ہے ،بات سے بات نکالنا ،فکرے بازی،عیب جوئی،طعنہ زنی، اور باتوں کے بتنگڑ بنانا‘ خواتین کا محبوب مشغلہ ہے ۔ جب یہ چیز ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے تو وہ بے چاری اپنے خاوندوں کے سامنے بھی بد تمیزی اور بد زبانی سے باز نہیں آسکتی‘ نتیجۃً وہ ناعاقبت اندیشی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
یاد رکھئے! ایسی اکھڑ مزاج اور بد زبان عورتیں کبھی بھی سکون اور عزت نہیں پاسکتیںبلکہ ان بیچاریوں کو ہمیشہ ذلت و رسوائی و تباہی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ اس کے برعکس اگر عورت خاموش طبع ‘سچائی پسند اور نرم لہجہ والی ہو تو صرف زبان کی مٹھاس ہی سے اپنی کئی خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے اور اپنے گھر کو گلستان بنا لیتی ہے۔ایک شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
خذ العفو منی تسدیمی مودتی
ولا تنطقی فی سورتی حین اغضب
’’جو کچھ میں دوں اسے قبول کرلے تو ہمیشہ میری محبت کے سائے میں رہے گی ،جب مجھے غصہ آئے تو میرے سامنے زبان نہ کھولا کر ‘‘
ہم لوگوں میں ایک رواج عا م ہوگیا ہے جو مشاہدہ میں بھی ہے کہ لڑکے شادی کے بعد بھی ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں ،ماں باپ اپنی اولاد کی شادی عمر کے اس حصہ میں کرا دیتے ہیں ‘جب وہ گھریلو ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں رکھتے پھر ماں باپ خود ہی ان کا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اولاد کو ماں با پ کے ساتھ اسی گھر میں رہنا پڑتاہے اس صورت میں ساس بہو کو ایک ساتھ رہنا پڑتاہے ۔