ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام طور پر دیکھنے میں آتاہے کہ اگر کوئی لڑکااپنی بیوی کو لیکر اپنے والدین سے الگ ہوجائے تو لوگ اسے برا ،بیوقوف، کم عقل ،نادان سمجھتے ہیں ۔لوگوں کا یہ طرز ماں باپ کے لئے دکھ کا باعث ہے۔جن کی محبت یہ گوارا نہیں کرتی کہ جس بچے کو بچپن سے پال پوس کر بڑا کیا ‘وہ ایک دم سے ماںباپ کو تنہا چھوڑ کر چلا جائے اور یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے‘ کیونکہ ماں باپ بیٹے کی شادی ہزاروں تمناؤں کو لیکر کرتے ہیں۔جب ان کی اولاد دیکھنے کا موقع آئے وہ ان سے الگ ہوجائے۔اگرچہ بعض علماء اس علیحدگی کو محبوب خیال کرتے ہیں،اور علت ان کی بھی بجا ہے۔
شاید ہی کوئی خوش نصیب بہو ہو جو اس مصیبت سے بچ جائے ورنہ ہر ایک بہوکو اس مصیبت سے گزرنا پڑتاہے۔کیونکہ جب ایک ہی گھر میں ایک ساتھ رہنا ضروری ہوگا تو یقینا آپس میں جھگڑے اور فساد ہوں گے۔
جھگڑا اور تکرار انتہائی بری چیز ہے:
لڑائی جھگڑے کے بارے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ‘ سب جانتے ہیں کہ لڑائی کسی کے بھی ساتھ ہو یہ اچھی چیز نہیں،لڑائی جھگڑے کی وجہ سے آپس کا اطمینان‘ سکون اور راحت ختم ہوجاتاہے ، دونوں فریقوں کے دلوں میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا ہمیشہ خطرہ رہتاہے،خاص طور پر اگر یہ لڑائی’’ میاں بیوی ،ساس بہو‘‘ کے درمیان ہوتو گھر کا سکھ‘ چین ختم ہوجاتاہے ۔
جن گھروں میں اس قسم کی لڑائیاں ہوں ان میں مصیبتوں اور تکلیفوں کے علاوہ کچھ نہیںہوتا‘ ایسے گھروں میں رہنا دوزخ میں رہنے کے برابر ہے ، آرام اور اطمینان ختم ہوجاتاہے ‘ہر وقت ایک ہی خیال دل میں آتا ہے کہ اس نے یہ کیوںکہا،یہ طعنہ کیوںدیا،آخر میرا قصور کیا تھا ’’ آئندہ میں بھی دکھا دوں گی…‘‘
ساس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ بیٹے اور بہو میں محبت نہ بڑھے ، اور بہو کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح ساس کو نیچا دکھائے ۔اگر یہ طریقہ کارگر نہ ہو تو پھر عاملوں اور کاہنوں کا سہارا لیا جاتاہے۔
ان تمام جھگڑوں میں شوہر کے لئے ایک عجیب کشمکش ہوتی ہے کہ ایک طرف تو ماں ہے جس کے بے شمار حقوق اس کے سامنے ہیں