اصحاب فروض‘‘ کو قرار دیا گیا ہے ،اصحاب فروض سے مراد میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو اس کے مال کے اولین حق دار ہیں ،ایسے ورثہ کی تعداد بارہ ہے اور ان کی فہرست درج ذیل ہے :
(۱)باپ (۲)دادا (۳) ماںشریک بھائی (۴) خاوند (۵)بیوی (۶) دادی (۷)بیٹی(۸) پوتی(۹)ماں (۱۰) بہن(۱۱)باپ شریک بہن (۱۲)ماں شریک بہن ۔
ذرا غور کیجئے کہ اصحاب فروض میں مردکتنے ہیں اور عورتوں کی تعداد کیا ہے ؟ یقینا ان ورثہ میں عورتوں کی تعداد مردوںسے دوگنی ہے ۔
(۲) قرآن مجید میں جب بیٹوں کی میراث کا ذکر آیا تو اس کے لئے مندرجہ ذیل تعبیر اختیار کی گئی :
’’وَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘
’’اور لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ‘‘
اس تعبیر میں غور فرمائیںتو اس معجزاتی جملہ کی حقیقت آپ کے سامنے کھلتی چلی جائے گی کہ اس میں اہل دانش کوکیا پیغام دیا جارہاہے ۔ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ،یعنی ہم لڑکیوں کا حصہ لڑکوں سے پہلے ہی طے کر چکے ہیں اوراب یہ اعلان کرتے ہیں کہ جتنادولڑکیوں کوملتا ہے ،لڑکے کی ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا حصہ اسے دے دیا جائے ۔کیا یہ تعبیر حق میراث میں صنف نازک کو مردوں پر فوقیت اورتقدم سے بہرہ ور نہیں کرتی…؟
……………
یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام بلا ضرورت گھر سے خواتین کے نکلنے کو پسند نہیں کرتا ،ضرورت کے موقع پر اسلام نے خواتین کو نکلنے کی اجازت دی ہے اور اس ضرورت کا دائرہ کافی وسیع ہے ،اگر کسی عورت کو روزی کمانے ،محنت مزدوری کرنے یا کسی اور ضرورت مثلاً علاج معالجہ وغیرہ کے لئے گھر کی چار دیواری سے نکلنے کی ضرورت ہوتو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ،البتہ اس میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ باپردہ ہو کر نکلے، زیب وزینت اور بناؤ سنگھار کے اس موقع پر غیر ضروری اظہار سے پر ہیز کرے کیونکہ اس طرح وہ کسی فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے گی۔
اسلامی معاشرہ میں عورت کوئی عضو معطل نہیں ہے بلکہ معاشرہ