کی ولادت کی خبر پر باپ کا چہرہ سیاہ پڑجاتا تھا ،اس کادل حزن وملال کی تاریکیوں میں ڈوب جاتا تھا ،وہ اسے زندہ درگور کرنے کی تدبیریں سوچنے لگتا تھا۔
زمانہ جاہلیت کی تاریخ کا جب گہرائی سے مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عربوں میں رواج پانے والی اس سوچ کے پیچھے بیشتر اوقات دو عوامل کارفرماہوتے تھے۔
ایک یہ کہ اس زمانہ کے جاہل اور زبان دراز شعراء اپنے اشعار میں لوگوں کی بچیوں کی عزت اچھالتے اور لڑکیوںکے نام لے کرنہ صرف ان کے نسوانی اوصاف کو ذکر کرتے بلکہ ان کے ساتھ محبت کی فرضی داستانوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تھا،اس سلسلہ میں وہ شعراء کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے کلی طور پرآزاد ہوتے تھے۔چنانچہ ایک غیرت مند باپ کے لئے یہ بات انتہائی ناقابل برداشت تھی کہ وہ کسی شرابی کے منہ سے اپنی بیٹی کے متعلق کہے گئے نازیبا اشعار سن سکے۔
دوسرابڑا سبب یہ تھا کہ شادی کے بعدلڑکی مکمل طورپر اپنے خاوند کی ملکیت میں چلی جاتی تھی،وہ اپنی مرضی سے اس کے ساتھ جیسا چاہتا سلوک کرسکتا تھا،خاوند کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میںاس کی بیوی کو بھی شمار کیا جاتا تھا…خاوندکی میراث میں سے بیوی کو کچھ ملنا تو دور کی بات… وہ ایک باندی کی طرح میراث میں تقسیم کردی جاتی تھی۔
اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی ان دونوں اسباب کاتدارک کیا ، اس سلسلہ میں لوگوں کی زبانوں کو قانون کا پابند بنانے کے لئے حد قذف کانزول ہوااور کسی پاکدامن اور عفیفہ پر تہمت لگانے والوں کوکوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ۔
اسی طرح عورت جسے بھیڑ بکریوں کی طرح میراث میںتقسیم کردیاجاتا تھا ، اسے میراث کاحصہ دار بنایا گیا …عورت جس کامقام ایک زر خرید غلام کا ساتھا اسے گھر کی مالکہ بنا دیا گیا…جو مخلوق پست تھی اسے بلندی عطا کی گئی…یہ حصہ محض رسمی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ میت کے ترکہ میں عورت کے حصہ کو ایک خاص مقام اور امتیازی حیثیت دی گئی۔ ہماری اس بات کی وضاحت ذیل میں دی گئی دو مثالوں سے بخوبی ہو سکے گی:
(۱) میت کے ورثہ میں سے اس کے مال کے اولین حقدار اس کے ’’