’’وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا ‘‘
’’ہم نے انسان کو اس بات کا حکم دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے ،اس کی ماں نے مشقت کے ساتھ اٹھائے رکھا اور پھر اسے مشقت کے ساتھ جنم دیا‘‘
جب صحابی ؓ نے آکرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ’ ’ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تیری ماں!‘‘دوباریہی سوال کیا تو فرمایا’’تیری ماں!!‘‘سہ بارہ سوال کیا تو پھریہی فرمایا’’تیری ماں!!!‘‘کیا اس فرمان میں ماؤں کے لئے زبردست تسلی کا سامان موجود نہیں ،کیا اس فرمان میںاس باپ کے لئے مسرت کاسامان نہیں جس کے گھر بیٹی کی پیدائش ہو،کیااس فرمان میں معاشرہ کو ایک ایسا پیغام نہیں دیا جارہا جس کی بنیاد عورت کی عظمت پر رکھی گئی ہے …؟
اسلام نے بیوی کی حیثیت سے عورت کو جومقام دیا دنیا کا کوئی نیا پرانا ،آسمانی یا غیر آسمانی مذہب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ میراث کا حصہ بننے والی کو میراث کا اہم مالک بنا دیا گیا۔شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا پابند بنایا گیا ،قرآن مجید میں خانگی زندگی کے احکامات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا اورانہیں اہمیت دی گئی ،یہاں تک کہ قرآن مجید میں ایک سورت کا نام’’ سورۃ النساء‘‘رکھا گیا،نساء عربی زبان میں عورتوں کو کہا جاتا ہے ۔خاوند اور بیوی کو حقوق میں برابری عطا کی گئی ، چنانچہ فرمایا:
’’وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘
’’ان عورتوں کے لئے وہ حق ہیں جو ان پر لازم ہیںنیکی کے ساتھ‘‘
ہر موقع پر عورت سے نیکی اور بھلائی کرنے کا حکم دیا گیا ،اگر دونوں کا مزاج آپس میںنہ ملے اور نوبت فرقت تک آجائے تو اس موقع پر بھی بھلائی کا دامن تھامنے کی تلقین کی گئی ،چنانچہ فرمایا:
’’فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ‘‘
’’یا تو معروف کے ساتھ روکو یا اچھے طریقہ سے رخصت کردو‘‘
اسی طرح وہ عورت جسے دوسرے معاشروں میں ذلت ونحوست کا نشان سمجھا جاتا تھا اسے مرد کے لئے سکون اور راحت کی علامت قرار دے دیا گیا ،چنانچہ فرمایا: