دل‘ زچ ہونا‘ تیوری چڑھانا‘اور غصے والا چہرہ… جیسے کوئی بہت ہی غضبناک اور خون کا بدلہ لینے کے لئے استقبال و انتظار کر رہا ہو ۔
یہ ایسا استقبال ہے جو خاوند کو یہ تمنا و آرزو کرنے میں مجبور کر دیتاہے کہ وہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جائے ۔
آیئے! ہم آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے واقعات میں سے ایک واقعہ سناتے ہیں‘ تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ وہ اپنے خاوندوں کا کس قدر اچھا استقبال کیا کرتی تھیں۔
چنانچہ مروی ہے کہ جلیل القدر صحابیہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا - حضرت ابو طلحہ کی بیوی اور حضرت انس کی والدہ -کا بچہ فوت ہوگیا جب حضرت ابو طلحہ سفر پر گئے تھے تو بچہ بیمار تھا‘ واپسی پر بیوی سے پوچھا کہ بچے کا کیا حال ہے؟ تو ام سلیم ؓ نے خود ان کو اس بچے کی موت کی خبر نہ سنائی بلکہ کہا کہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے‘ پھر نیک بیوی نے اپنے خاوند کی خدمت میں شام کا کھانا پیش کیا تو انہوں نے کھا لیا‘ پھر رات کے وقت انہوں نے حقوق زوجیت بھی ادا کئے‘جب فارغ ہوئے تو نیک بیوی ان سے مخاطب ہوکر ایک سوال کرتی ہے کہ اگر کسی نے کسی سے کوئی چیز ادھار مانگی ہو پھر جب تک اللہ نے چاہا ان کے پاس رہی ہو اور جب چیز کے مالک نے اپنی چیز کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو تو کیا اس کو یہ حق ہے کہ وہ دینے سے انکار کردے ؟
اور جب اصلی مالک اپنی وہ چیز قبضے میں کرلے تو کیا واپس کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ وہ اس پر جزع فزع کرے ؟
تو اس پر ابو طلحہ نے کہا: نہیں …!
یہ جواب سن کر نیک بیوی نے کہا کہ آپ کا بیٹا بھی دنیا سے چلا گیا ہے ‘ابو طلحہ نے پوچھا کہ وہ کدھر ہے؟
ام سلیم ؓ نے کہا کہ وہ اس کوٹھڑی میں ہے ۔
ابو طلحہ نے اس کا چہرہ دیکھا اور ’’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ پڑھا۔
جب صبح ہوئی تو ابو طلحہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اپنی بیوی کی بات بتائی ۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘اس عورت کے اپنے بچے پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کے پیٹ میں ایک اور بچہ پیدا کردیا ہے ‘‘
حضرت سفیان کہتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ میں