نے اس عورت کے پاس نو بچے دیکھے اور سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔
قربان جایئے ! ام سلیمؓ کی دانائی پہ …ان کی دانائی اور سمجھ داری کس قدر وسیع اور بلند تھی‘ کسی مرد کے لئے بھی اس خبر سے بڑھ کر کوئی اور اندوہ ناک خبر ہوگی کہ اس کو اس کے لخت جگر کی موت کی خبر دی جائے‘ ایسی خبر سے باپ پر کیا گزرتی ہے اور اسے کتنا بڑا صدمہ پہنچتاہے لیکن قربان جایئے کہ ایسی ہولناک اور گھبراہٹ میں ڈال دینے والی خبر میں بھی رضا وتسلیم کے ساتھ اپنے خاوند کا استقبال ہورہا ہے۔
اس میں ساری کی ساری خوبی اور فضیلت کس کے لئے ہے؟ یقینا یہ نیک بیوی ام سلیمؓ کے لئے ہی ہے ۔
دیکھئے تو سہی! جب نیک خاوند نے سب سے پہلا سوال اپنے پیارے بیٹے کے بارے میں کیا کہ اس کا کیا حال ہے تو کیا ان کی نیک بیوی فورًا یہ کہہ دیتی کہ وہ فوت ہوگیا ہے ۔نہیں… بلکہ سمجھ دار اور دانا بیوی نے اپنے خاوند کو غم میں ڈالنے والی خبر ہر گز نہ دی،کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ میرا خاوند تھکاوٹ اور پریشانی کے عالم میں گھر آیا ہے اگر انہیں ایسی اندوہ ناک خبر سنائی گئی تو ان کی پریشانی دو بھر ہوجائے گی ۔
پھر اس نیک بیوی نے اس وقت غلط بیانی سے بھی کام نہیں لیا بلکہ کہا کہ وہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے اس میں خاوند کو اپنے بیٹے کے بارے میں تسلی بھی ہے اور غلط بیانی بھی نہیں‘ کیونکہ وہ بچہ موت کی وجہ سے واقعتا سکون میں ہو چکاتھا ۔
پھر وہ سمجھ دار بیوی اپنے خاوند کو اس کے بچے کی موت کی خبر دینے سے پہلے شام کا کھانا کھلاتی ہے کیونکہ اگر وہ کھانے سے پہلے خبر دے دیتیں تو عین ممکن تھا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کھانا بھی نہ کھاتے ۔
پھر انہیں حقوق زوجیت ادا کرنے کا بھی موقع دیتی ہیں …اب وہ سمجھتی ہیں کہ میرے خاوند اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ غم اور رنج والی خبر سن سکیں۔ اسی پر بس نہیں …بلکہ خطرناک خبر دینے سے پہلے وہ ایک عجیب مقدمہ اور تمہید باندھتی ہیں کہ جسے ابو طلحہ دل و جا ن سے قبول اور تسلیم کرتے ہیں اور اس پر ان کا پورا ایمان و یقین بھی ہے ‘کیونکہ یہ اصل میں اللہ تعالی کی قضا و قدر کو تسلیم کرنے کی ایک تمہید ہے ،وہ یہ کہ ان کا بچہ ان کے پاس اللہ کی ایک امانت تھی ‘اللہ نے اس امانت کو ان سے طلب کیا ،اب انہیں اس امانت کی واپسی پر جزع فزع کرنے کا کوئی