ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
تو وہ یہی سمجھئے گا کہ مجھ کو اس سے بیماری لگ گئی اس اعتقاد سے بچنے کے لئے آپ نے اختلاط سے منع فرمایا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بعض نے لاعدوی میں تاویل کی ہے ۔ اور بعض نے مجذوم والی حدیث میں مگر اقرب یہ ہے کہ تعد یہ ہوتا ہے مگر باذن الٰہی ہوتا ہے اور بلا اذن نہیں ۔ چنانچہ بریلی میں ایک بنگالی ہندو کا قصہ ہے کہ اس کا لڑکا مبتلائے طاعون ہوا ۔ وہ ہندو برابرا اس کے پاس لیٹتا تھا ۔ اس کا سانس اس پر آتا تھا ۔ وہ لڑکا مرگیا ۔ اس کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اپنی زندگی بار معلوم ہونے لگی ۔ اسی لئے قصدا اس کی استعمالی چیزوں کو خوب استعمال کرتا تھا کہ میں بھی مرجاؤں مگر نہیں مرا ۔ بتلایئے اگر تعدیہ بالذات ہوتا تو وہ کیوں بچتا ۔ اسی طرح اگر تعدیہ بالذات مانا جائے تو اگر کسی جگہ بیماری ہوتو قصبہ میں سے ایک بھی نہ بچے ۔ وہاں کون چیز مانع ہے ۔ ایک شفیق طبیب تھے جہنوں نے طاعونیوں کا علاج اس طرح کیا کہ دوا اپنے ہاتھ سے بناتے اور پلاتے ان کو گود میں لے کر بیٹتھے کہتے تھے کہ ان کے 63 مریضوں میں سے 53 صحبت یاب ہوئے ۔ ان میں بعض مریض اس قدر تیز مادہ کے تھے کہ انہوں نے ایک مریض کی نبض پر ہاتھ رکھا تو انگلی میں آبلہ پڑگیا ۔ مگر ان کا کان بھی گرم نہ ہوا ۔ غرض بالذات خاصیت تو تعدیہ کی اس میں نہیں ۔ البتہ اسباب ظنیہ کے درجہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے متاثر نہ ہونیکا مدار قوت وضعیف قلب پر ہے ۔ ضعیف القلب پر اثر زیادہ ہوتا ہے اس کے متعلق ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس بستی میں مرض ہو اس کو چھوڑ کر چلے جانا جائز نہیں ۔ ہاں اسی بستی میں اس مکان میں سے دوسرے میں چلے جانا جائز ہے ایک دقیق فرع اس کی یہ بھی ہے کہ اگر ساری بستی والے کہیں چلے جائیں ایک بھی وہاں نہ رہے تو جائز ہے ۔ باقی یہ جائز نہیں کہ بعض وہیں رہیں اور حکمت اس میں یہ ہے کہ بعض کے چلے جانے سے باقی ماندوں کی دل شکنی واضاعت حق ہوتا ہے کہ مریضوں کی تیمارداری کون کرے گا ۔ حقیقی ہمدردی یہ ہے جو اس مسئلہ سے ظاہر ہوتا ہے ۔ باقی لیڈر ویڑر لوگوں کی ہمدردی صرف باتیں ہی باتیں ہیں وہ تو ہمدردی ہے ان کی تہزیب تہزیب نہیں ۔ تعزیب ہے ۔ اطباء اور ڈاکٹروں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کو دیکھنے جاتے ہیں ۔ تو دور کھڑے رہتے ہیں ۔ اس صورت میں مریض کی کیسی دل شکنی ہوگی وہ سمجھے گا کہ اس مرض کی وجہ سے پرہیز کررہے ہیں اس کا دل کیسا ٹوٹے گا کہ جب یہ ایسا سخت ہے تو میں کیا بچوگا ۔ ایک سب انسپکٹر مجھ سے ایک مقام کا ذکر کرتے تھے کہ ایک امیر زادہ مرض طاعون میں مبتلا