ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
لہٰزا موجب سجدہ نہیں ہے فرمایا نماز میں سونے کے متعلق ایک مسئلہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو فعل بحالت نوم معتبر نہیں ہے اس کا دہرانا ضروری ہے مثلا کسی نے رکوع سونے کی حالت میں کیا تو یہ رکوع صحیح نہیں ہوا ۔ اس کو چاہئے کہ اگر رکوع کی حالت میں آنکھ کھل جائے تو ذرا توقف کر کے قومہ کرے تاکہ یہ رکوع ہوجائے ۔ اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ بعضے حافظ تراویح میں سوتے سوتے قرآن کریم پڑھ جاتے ہیں ۔ یہ قرآن جو سونے کی حالت میں پڑھا گیا معتبر نہیں اس کو دہرانا چاہئے ورنہ قرآن ناتمام رہے گا ۔ اور یہی حکم استغراق کا ہے ۔ نوم اور استغراق ایک ہی حکم میں ہیں ۔ یہاں سے استغراق کی فجیلت کا اندازہ ہوتا ہے جس کو لوگ بڑا کمال سمجھتے ہیں کہ اس حالت کا کوئی عمل شمار نہیں ہوتا ۔ ہاں استغراق کوئی بری حالت نہیں بلکہ محمود ہے ۔ کیونکہ خطرات سے اس میں نجات ملتی ہے ۔ مبتدی کو اس سے نفع ہوتا ہے مگر قرب میں اس کو کچھ دخل نہیں ۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار کی تحقیق یہی ہے کہ استغراق سے افاقہ ہوگا توآدمی وہیں ہوگا ۔ جہاں سے استغراق شروع ہوا تھا اس کو ترقی مطلق نہ ہوئی ہوگی ۔ 25 صفر 1337 ھ یوم السبت 30 نومبر 18 ء بعد عشاء قلندر صاح﷽ کی درگاہ میں وعظ طریق القلندر ہوا جس میں تصوف کی واقعی حقیقت کا اور ان مغالطوں کا بیان ہوا ۔ جس میں رسمی پیر نیز رسمی علماء پڑے ہوئے ہیں ۔ خلاصہ اس کا یہ تھا کہ دین میں دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔ عمل کی اور محبت کی ۔ اہل تقشیف اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ صرف عمل کو کوئی سمجھتے ہیں اور مدعیاں تصوف اس غلطی میں پڑے ہوئے ہیں کہ صرف محبت کو کافی سمجھتے ہیں ۔ اور اس کو ایک لطیف مثال سے بیان فرمایا ۔ یہ وعظ ایسا بلیغ تھا کہ ہر طبقہ کے لوگ سنکر جھوم رہے تھے خصوصا صوفی صاحبان پر تو وجد کیسی کیفیت تھی ۔ غرض ایسا وعظ ہوا کہ گو حضرت والا ہر وعظ بے مثل ہوتا ہے مگر حضرت کے مواعظ میں بھی اس کی نظیریں زیادہ تعداد میں نہیں ملیں گی ۔ خیال یہ تھا کہ بوجہ سردی کے رات کو مجمع زیادہ نہیں ہوگا لیکن خلاف امید تقریبا چار ہزار آدمی تھے ۔ ایک حصہ میں قنات کے پیچھے مستورات بھی تھیں ۔ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی ۔ انہی کی رعایت سے اہل مشورہ نے رات کے وقت کو بیان کیلئے ترجیح دی تھی ۔ نیز قلندر صآحب کی درگاہ کوبھی اس واسطتے تجویز کیا تھا کہ مستورات کیلئے اس سے اچھی جگہ کہیں نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس