ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
بسم اللہ الرحمن الرحیم گور کھپور میں ایک شخص نے استخارہ کا طریقہ دریافت کیا تو فرمایا صلٰوۃ الاستخارہ یعنی دو نفل پڑھ کر سلام پھیر کر دعا استخارہ پڑھے ۔ پھر قلب کی طرف رجوع کرے ۔ سونے کی ضرورت نہیں اور ایک دفعہ بھی کافی ہے حدیث میں تو ایک دفعہ ہی آیا ہے اور پہلے سے اگر کسی جانب اپنی رائے کو رجحان ہو تو اس کو فنا کردے ۔ جب طبیعت یکسو ہو جائے تب استخارہ کرے اور یوں عرض کرے کہ اے اللہ جو میرے لئے بہتر ہو وہ ہوجائے اور مانگنا اردو میں بھی جائز ہے لیکن حضور صلی اللہ علیھ وسلم کے الفاظ بہتر ہیں ۔ واقعہ 27 صفر 1337 ھ بمقام پانی پت فرمایا استخارہ ہوتا ہے تردد کے موقعہ پر اور تردد کے معنی یہ ہیں کہ مصالح طرفین کے برابر ہوں اور جب ایک جانب کی ضرورت متعین ہوتو استخارہ کیا معنی ۔ ایک طالب علم دو استفتاء لائے ان کو حضرت والا نے بہت سرسری نظر سے دیکھ کر ان سے پوچھا کہ یہ سوال آپ کسی دوسرے کے سمجھانے کیلئے کرتے ہیں یا خود معلوم کرنے کیلئے ، کہا اپنے سمجھنے کیلئے ۔ فرمایا تو تحریر کی کیا ضرورت ہے ۔ زبانی سوال کیجئے میں جواب دیدوں گا ۔ تحریر میں دیر لگتی ہیں ۔ اتنا وقت میرا کیوں ضائع ہو ۔ کہا لکھ دیجئے کیونکہ باہر بھیجنا ہے ۔ فرمایا آپ نے ابھی تو کہا تھا کہ اپنے واسطے ضرورت ہے اور اتنی ہی دیر میں پلٹ گئے کہ باہر بھیجنا ہے ۔ میں نے بھی کیسا پہچان لیا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی ۔ چالاکیاں کی جاتی ہیں استفتوں میں ۔ اسی واسطے میں ہر سوال کے جواب کیلئے تیار نہیں ہوجاتا ۔ کیونکہ کہیں مقصود مسئلہ کی تحقیق نہیں ہوتی ۔ صرف دق کرنا ۔ اور وقت ضائع کرنا ہوتا ہے اور کہیں اصل سوال کے بیچ میں اپنے مطلب کے موافق انیچ پینچ کیا جاتا ہے ۔ تاکہ جواب مرضی کے موافق ملے ۔ جب خوب چھان بین کرلیتا ہوں ۔ تب جواب دیتا ہوں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سوال کیا جاتا ہے ۔ اور جب جواب ان کے خلاف ہوتا ہے تو اس میں ایک قید اور لگاتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ یہ بات بیان سے رہ گئ تھی تاکہ حکم پلٹ جائے ایسے وقت میں ان کو بھی دق کرتا ہوں اور اگر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ صرف شرارت ہے اور اپنا کام نکالنا ہے تو جواب سے مطلقا ہی انکار کردیتا ہوں اور کہہ دیتاہوں کہ جاؤ میں نہیں بتاتا ۔ یہ کیا ضروری ہے کہ ہم سائل کے تابع بنیں کہ جس طرح چاہئے نچائیں ۔ آپ کو یہ فتویٰ جس کے