ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
علوم دنیا کے کہ جب تک اس کا اعلٰی درجہ حاصل نہ ہو۔ حاصل شدہ مقدار کا کوئی نتیجہ نہیں مثلا کسی کو اذان یاد ہوتو گاؤں میں جابیٹھے اذان کہے دو چار دن کے بعد تو روٹی ملنے ہی لگے گی ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی سے علاقہ رکھنے والے کو پریشان نہیں ہوتی ۔ ہم نے تو دیکھا نہیں کہ کوئی پریشان ہو ۔ ثروت نہ ہو ۔ تمول نہ ہو مگر مطمئن ہوتا ہے ۔ جتنا علاقہ اللہ تعالٰی سے کم ہوتا ہے ۔ اسی قدر پریشان رہتا ہے مقصود معشیت کا یہ ہے کہ قلب کو راحت ہو ۔ سو تعلق مع اللہ سے یہ حاصل ہو ہی جاتی ہے ۔ واقعہ : آخر الا عمال جو حضرت والا کا عظ ہے طبع ہوچکا ہے اس کا ذکر تھا ۔ اس وعظ میں تصوف کا بیان ہے ۔ تصوف حقیقی وہ ہے جو قرآن وحدیث سے ماخوذ ہو علماء حضرت حاجی صاحب کے پاس کیوں جانتے تھے ارشاد : فرمایا کہ مجھے تو تصوف سارے قرآن وحدیث میں پھیلا ہوا معلوم ہوتا ہے تصوف تو حقیقی وہی ہے جو قرآن وحدیث کا مد لول ہو ورنہ وہ تو تصرف ہے تصوف ہے کہاں ۔ حضرت حاجی صاحب کا وجود اس وقت میں غنیمت تھا ۔ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ان کی خدمت میں رہنے سے تمام قرآن شریف سمجھ میں آتا تھا ۔ حضرت کے چھوٹے چھوٹے جملے بطور متن کے ہوتے تھے ایسا محقق اس وقت میں نہیں ہے مناسبت جس چیز کا نام ہے فن سے وہ حضرت کی خدمت رہنے سے اور باتیں سننے سے ہوتی تھیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے حقیقت معلوم ہوتی تھی فن کی ۔ ایک شخص نے دیوبند میں پوچھا تھا کہ تم مولوی لوگ ہو تم میں کون حالت منتظرہ باقی تھی کون سی بات ہے جو کتاب میں نہیں پھر مولوی لوگ حاجی صاحب کے یہاں کیوں جاتے ہیں ان کے پاس کیا تھا ۔ میں نے کہا دو چیزیں ہیں الفاظ اور معانی ۔ سو الفاظ تو محتاج ہوتے ہیں معانی کے اور معانی محتاج نہیں ہوتے الفاظ کے جیسے ایک شخص کو لڈو کا نام معلوم ہو اور اس کے پاس لڈو نہ ہو تو اس کو لڈو حاصل کرنے کی حاجت ہے ۔ اور ایک شخص کے پاس لڈو ہے مگر اس کانام نہیں جانتا اس کو مقصود حاصل ہے نام نہ جاننے سے ۔ مقصود میں کچھ خلل نہیں ۔ سو ہم لوگ اہل الفاظ ہیں اور حاجی صاحب اہل معانی ہیں اسلئے ہمیں حاجی صاحب کی حاجت ہے اور حاجی صاحب کو ہماری حاجت نہیں ہے سو اس کو سن کر بہت خوش ہوئے وہ شخص ۔ اور کہا کہ اچھی بات کہی آپ نے سمجھ میں آگئی ۔