ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
نے خاص علم دیا ہے تو خضر کے افعال کا صواب ہونا نص قطعی سے معلوم ہوگیا تھا ۔ اس لئے روک ٹوک نہ کرنا جائز تھا ۔ دوسرے مربی کو اس پر قیاس نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ وحی قطعی سے ان کے افعال کا صواب ہونا معلوم نہیں اس لئے ان کے افعال پر روک ٹوک ضروری ہے البتہ طریقہ اس کا یہ ہے کہ جیسے اپنے باپ کو نصیحت کرے ادب سے بے ادبی نہ کرے یہ صورت ہونی چاہیے دیکھئے آذر کافر تھے ابراہیم علیہ السلام نے احتساب کیا مگر کیسے نرم الفاظ میں ،، یاابت یاابت ،، بار بار کہنے کی ضرورت کیا تھی ۔ ضابطہ کا کلام یہ تھوڑا ہوتا ہے ۔ لوگوں نے اسی آیت سے نکالا ہے کہ ماں باپ کا ادب کرنا چاہیے چاہے وہ کافر ہوں ایسے ہی شیخ کا ادب ہونا چاہئے فقط ۔ واقعہ : حضرت والا مسجد مٰیں سے ظہر موافق عادت سہ دری میں تشریف لائے ایک نووارد صاحب پنکھا کھینچ رہے تھے انہوں نے ہاتھ کو نہ روکا حتی کہ پنکھا حضرت والا کے سرمیں لگنے سے بچ گیا اور ان سے کہا کہ چھوڑ دو ۔ پھر اسکے بعد فرمایا ۔ حضرت نئے آدمی سے خدمت نہیں لیتے ارشاد : نئے آدمی کو ہر گز کوئی خدمت نہ کرنی چاہئے ۔ ابھی میرے سر پر پنکھا لگنے سے بچ گیا(پھر حاضرین سے فرمایا ) تجربہ سے معلوم ہوا کہ زیادہ تربیت خدمت میں یہ ہوتی ہے کہ میں مقرب ہوجاؤں ۔ میں اس کو رشوت طریقت کی سمجھتا ہوں میں اس کو جائز نہیں سمجھتا ۔ پھر حاضرین سے فرمایا کہ اگر ایسی باتیں اور لوگ (جو یہاں کی حالت سے واقف ہیں ) نئے آنے والوں کو بتلا دیا کریں تو اچھا ہو ۔ اور بتلائیں نرمی سے میں اکیلا ساری باتیں کہاں تک بتلاؤں فقط ۔واقعہ : ایک صاحب نے عرض کیا حضرت والا سے کہ آپ نے کل وعظ میں بیان کیا تھا کہ کل یوم شک کے دن روزہ خواص کو جائز ہے عوام کو یا جائز ہے تو اگر (عوام ) خواص سے پوچھیں کہ تمہارا روزہ ہے تو کیا انکار کردیں اس پر فرمایا کہ ہاں انکار کردیں ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ کیا یہ جھوٹ نہ ہوگا ۔ اس پر حضرت والا نے فرمایا ۔ کذب لعینہ قبیح نیہں ارشاد : یہ تو ان ہی کے نفع کے واسطے جھوٹ ہے کہ ان کا دین محفوظ رہے جھوٹ لعینہ قبیح نہیں ہے بوجہ اضرار قبیح ہے ۔ اور جب کسی کا اضرار نہ ہو بلکہ فائدہ ہو تو قبیح تھوڑا ہی ہے ۔ اسی وجہ سے