ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
انتصف شعبان فلا صوم الا عن رمضان کہ جب شعبان آدھا گز ر جائے تو رمضان کے سوا دوسرا کسی قسم کا روزہ نہ رکھا جائے شاید کوئی کہے کہ روزہ نہ رکھنا رمضان کے روزہ کیلئے مقدمہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جو مجاہدات شروع فرمائے ہیں ان میں دو باتوں کا بہت لحاظ رکھا گیا ہے ۔ ایک ہمت کا دوسرے قوت کا ۔ اور یہ بات صرف حضورﷺ ہی کی تعلیم میں پائی جاتی ہے ۔ دیگر حکماء یا محض ہمت بڑھاتے رہتے ہیں ۔ جس سے قوت میں خلل پڑ جاتا ہے یا محض قوت کی رعایت کرتے ہیں جس سے ہمت پست ہوجاتی ہے ۔ حضور ﷺ نے ہمت اورقوت دونوں کا لحاظ فرمایا ہے ۔ ہمت بڑھانے کا لحاظ تو اس طرح فرمایا کہ وسط شعبان میں روزہ مسنون فرمایا ۔ اور قوت کا لحاظ اس طرح فرمایا کہ نصف شعبان کے بعد روزہ منع فرما دیا تا کہ رمضان کے لئے قوت محفوظ رہے اور رمضان کیلئے نشاط پیدا ہوجائے ۔ اس سے ایک بڑا فائدہ مشائخ کے لئے حاصل ہوا وہ اپنے مریدین کی تعلیم میں ہمت اور قوت دونوں کا لحاظ کریں یہ بات میری ذہن میں پہلی نہ آئی تھی ۔ حق تعالٰی نے اس وعظ میں یہ علم عظیم عطا فرمایا ۔ اس کے تحت میں پھر بہ سی جزئیات نکل سکتی ہیں ۔ (والحمداللہ علی ذالک حمدا کثیرا ) فقط ۔ ملفوظات مولوی ظفر احمد صاحب ختم ہوئے ) حضرت موسی اور حضرت خضر کے واقعہ میں موسی کی طرف وعدہ خلافی کا شبہ ہوتا ہے واقعہ : حضرت موسی اور حضرت خضر کا ذکر تھا اس پر ایک صاحب نے عرض کیا کہ موسی نے وعدہ خلافی کی یعنی حضرت خضر سے کہا تھا کہ میں کسی امر میں آپ کے خلاف نہ کروں گا مگر پھر انہوں نے اعتراض کیا ان کے فعل پر ۔ ارشاد : وعدہ خلافی اسے کہتے ہیں کہ قصدا کرے ان کے پاس عذر تھا انہوں نے خود بیان کردیا ۔ چنانچہ کلام اللہ میں ہے ۔ لا تواخذنی بما نسیت اور موسی کو خضر کا فعل دیکھ کر جوش ہوتا تھا کہ انہوں نے خلاف شرع کام کیا ۔ اس جوش میں کہہ دیتے تھے بعض لوگ استدلال کرتے ہیں اس قصہ سے کہ جائز نہیں ہے ۔ اپنے مصلح کا روک ٹوک کرنا ۔ چنانچہ دیکھو کہ موسی نے روک ٹوک کی تو خضر علیہ السلام نے کیا فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ روک ٹوک کرنا جائز نہیں ۔ جواب یہ ہے کہ موسیٰ کو وحی سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ ہمارا ایک بندہ ہے جس کو ہم