ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
لوگ حضرت کو وہاں لے گئے ۔ وہ کمرے دکھائے جو بطور درسگاہ تجویز ہوئے تھے ان میں ایک کمرہ ایسا تھا کہ آبادی کی طرف اس کی پچھیت تھی اور سامنے اس کے تھوڑا صحن تھا گویا یکسوئی کی جگہ تھی ۔ فرمایا یہ جگہ رہنے کی اور اللہ اللہ کرنے کی ہے اس لفظ کو ایسے لہجہ سے فرمایا جس سے تڑپ ٹپکتی تھی جس کا اثر سامعین کو محسوس ہوتا تھا اسی مدرسہ کے متصل حافظ غلام مرتضٰی صاحب مجزوب کا مزار پر کھڑے ہوگئے اور تھوڑی دیر کچھ پڑھتے رہے سنا ہے کہ حضرت فرمایا کرتے ہیں کہ مجھے اس مزار کی طرف خواہ مخواہ کشش ہوتی ہے کیونکہ میں انہی کی دعا سے پیدا ہوا ہوں ۔ اور شورش جو میرے طبیعت میں ہے انہی کا اثر ہے ۔ ورنہ حضرت حاجی صاحب تو رحمت محضہ تھے ۔ 27 صفر 1337 ھ یوم دو شنبہ 2 دسمبر 1918 ء صبح کو 8 بجے کے بعد دو گھنٹہ کے قریب محلّہ مخدوم زادگان میں عبدالحکیم کے زنانہ مکان میں وعظ ،، کساءالنساء ،، ہوا کھانا اس وقت کا محلّہ انصار میں ایک جگہ تھا ۔ بعد وعظ اہاں تشریف لے گئے کھانا کھلانے کا سامان کیا جارہاتھا کہ ایک شخص نے کہا میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا جائے قیام پر تشریف لایئے اس وقت دماغ تھکاہوا ہے ۔ نیز یہ جلسہ کھانے کا ہے ہر بات کا ایک موقع ہوتا ہے یہاں کھانا کھانے کے واسطے آئے ہیں ۔ خیالات دوسری طرف ہیں کسی سوال کے جواب کیا کا کیا دیدیا جائے کیونکہ توجہ تو اس طرف ہے ہی نہیں ۔ ایسے وقت سوال کرنا بڑی غلطی ہے یہ ایسا ہے جیسے کوئی طبیب راستہ میں چلا جارہا ہے اور کوئی مریض کہے چلتے چلتے نسخہ ہی لکھتے جاؤ ۔ اس حالت میں کیا نسخہ لکھے گا ۔ اور کیا اس سے شفا ہوگئی لوگوں کی حس نہ معلوم ایسی باطل کیوں ہوئی ہے کہ اتنی کھلی بات نہیں سمجھتے ۔ پھر فرمایا یہ آداب ہیں جن کو لوگ کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ حالانکہ ان کی ضرورت سب کو ہوتی ہے اوران کے خلاف کرنے سے تکلیف بھی سب کو ہوتی ہے خصوصا مہمان کو۔ مگر بوجہ اخلاق کے کوئی کہتا نہیں ۔ میں جو کہہ دیتا ہوں تو بدنام ہوں اور مجھ کو بدخلق اور تیز مزاج کہا جاتا ہے ۔ پوچھنے کیلئے ہمیشہ الگ جلسہ ہونا چاہئے جس میں یہی کام ہوتا کہ جواب دینے والے کے عام خیالات اسی طرف متوجہ ہوں ۔ بعض لوگ کھانا کھاتے میں کچھ پوچھا کرتے ہیں تو میں منع