ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ہوا ۔ اس کے گھر والے اس کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر جگہ چلے گئے ۔ وہ لڑکا مرگیا تو مرنے کی خبر آئی اور تجہیزو وتکفین کا سامان شروع کیا محلہ کے غرباء نے کہا کہ چونکہ یہ ہمارا دینی بھائی ہے اس لئے ہم اس کی تجہیزو وتکفین خود کریں گے آپ ہاتھ نہ لگایئے آپ وہی تو ہیں جو اس کو چھوڑ کو بھاگ گئے تھے ۔ مئو میں ایک جماعت نے اپنے ذمہ طاعون والوں کی خدمت اور ان کا کفن دفن کرنا لیاتھا ۔ چنانچہ ان کا کان بھی گرم نہ ہوا ۔ یہ بھی اور عدم تعدیہ کی دلیل ہے سچی بات ہے نبار دہواتا نہ گوئی ببار ٭ زمیں نادر وتانہ گوئی بیار مولانا فرماتے ہیں شعر ۔ خاک وباد آب وآتش بندہ اند ٭ بامن وتو مردہ باحق زندہ اند مولانا نے ایک طویل حکایت لکھی ہے اس میں یہ بھی ایک جزو ہے کہ ایک بچہ کو کفارنے آگ میں ڈال دیا ۔ اور وہ نہیں جلا بلکہ اوروں کو بلانے لگا لوگ گرنے لگے اور جلتے نہ تھے غصہ ہوکر بادشاہ نے آگ کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا تو آگ نہیں رہی خد نے اس کو ناطق بنا دیا اور وہ کہنے لگی گفت آتش من ہما نم آتشم ٭ اندر آتا توبہ بینی تابشم خورجہ میں ابھی قصہ ہوا ۔ ایک عامل آئے تھے وہ آگ میں کو نگل گئے ابھی اس کا مشاہدہ کثیر التعداد لوگوں کو ہوا ۔ وہ کامل بھی نہ تھے بلکہ عامل تھے بتلایئے کہ خاصیت طبعی آگ کی کہاں چلی گئی جیسے کہ اہل سائنس کہتے ہیں کہ خاصیت طبعی جانہیں سکتی ۔ بات یہ ہے کہ سب اذن سے ہوتا ہے اور مسلمان کے ساتھ تو ایسا معاملہ ہوتا کہ آگ کی خاصیت ظاہر نہ ہو ۔ عجیب نہیں رنجیب سنگھ کا قصہ ہے کہ مع فوج کے جارہا تھا ۔ درمیان میں دریائے اٹک پڑا ۔ کشتی تھی لوگوں نے کہا کہ ایک دریا ہے ۔ اس نے جواب دیا کہ جس کے دل میں اٹک اس کے لئے اٹک ہے ۔ اور گھوڑا ڈال دیا ۔ گھوڑوں کے سم کے سوا اور کچھ بھیگا تک نہیں حالانکہ ثقیل چیزوں کا میلان مرکز کی طرف ہے چاہئے تھا کہ نیچے کو جاتے ۔ بس ان کو خدا ہر اعتماد ہوا ۔ خدا نے پاراتار دیا ۔ سیر کی کتابوں میں ابن العلاء حضرمی کا قصہ مزکور ہے حضرت خلیفہ اول نے ان سے کہہ دیا تھا کہ راستہ میں تو قف مت کرنا ۔ ایک موقعہ پر پہنچے کہ وہاں سمندر حائل تھا حالانکہ مطلب خلیفہ کا یہ تھا کہ آرام کیلئے تو قف مت کرنا نہ یہ کہ سمندر ہو جب بھی تو قف نہ کرنا ۔ پس عبور کا عزم بالجزم کرلیا اور دعا کی کہ موسٰی علیہ