ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
اور جبکہ لوگ خود دیتے ہیں اس میں ذلت کی کیا بات ہے ۔ واقعہ : ایک صاحب کی بابت معلوم ہوا کہ وہ عیسائیوں سے مناظرہ کرتے ہیں اور جب کوئی عیسائی رسول اللہ ﷺ کی شان گستاخی کرتا ہے تو وہ عیسیٰ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اس پر فرمایا ۔ ارشاد : اس کی ایسی مثال ہے کہ عیسائی سورکا گوشت کھائے تو یہ بھی کھائیں ۔ اور یوں کہیں کہ یہ اس لئے کہ عیسائی سے مقابلہ ہے ۔ یہ بات ضرور ہے کہ اگر اہل باطل کے مقابلہ میں بولا نہ جائے تو ان کو جرات بڑھتی ہے مگر پھر بھی یہ ضرور چاہئے کہ حدود سے باہر قدم نہ رکھیں ۔ اوراصل بات تو یہ ہے کہ آجکل مناظرہ میں بجائے احقاق حق کے شفائے غیظ مقصود ہوتی ہے جیسے کوئی کہے کسی کو حرام زادہ تو مقابل کو صرف حرام زادہ کہنے سے شفا نہیں ہوتی بلکہ یوں کہے گا تو حرام زادہ تیرا باپ حرام زادہ ۔ اب پوری شفاہوگی ۔ یہی حالت رہ گئی مذہبی گفتگو میں کہ بے ادبی کا جواب زیادہ بے ادبی سے دیاجاتا ہے اور بھلا بے ادبی صریح تو کیسے جائز ہوتی ۔ اگر تفصیل نبوی میں دوسرے انبیاء السلام کی بے ادبی کا ایہام بھی ہوتا ہو تب بھی ذموم ہے حضور ﷺ کی مدح بمقابلہ اور انبیاء کے کرنا میں نے اس کا معیار یہ معین کیا ہے کہ اگر سارے انبیاء ایک جلسہ میں ہوں اور یہ شخص حضور ﷺ کی مدح کرنا چاہے تو اس وقت کس طرح کی مدح کریگا ۔ کیا ایسی مدح کریگا جس میں دیگر انبیاء کی توہین ہوتی ہو ہرگز نہیں بس اس سے فیصلہ ہوجائیگا ۔ تو ایسی مدح کرے جو اس وقت سب حضرات کے روبرو کرسکے ۔ ایسی مدح بیشک طاعت ہے ۔ چنانچہ حسان بن ثابت نے حضور کی مدح فرمائی ہے اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اوروں کو بھی شفادی اور خود بھی شفاحاصل کی ۔ مگر ایسا وہی کرسکتا ہ کہ جس کو قدرت بھی پوری ہو کلام کی اور تدوین بھی کامل ہو اور علم بھی کافی ہو وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ بزرگوں کے ہاتھ پاؤں چومنا ارشاد : یہ جو دستور ہے کہ بزرگوں کے ہاتھ چومنا ۔ میں نے تھانہ بھون میں اس کو موقوف کردیا ہے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔ میں نے اپنے بزرگوں کے پاس آنے والے لوگوں کو دیکھا ہے وہ ان کے ہاتھ پاؤں نہیں چومتے تھے ۔ مگر اب ایک رسم ہو گئی ہے میں اوروں کیلئے منع نہیں کرتا مگر مجھے اپنے لیے پسند نہیں ۔