ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
میری دعوت تھی اور میں وہی کھانا کھارہا تھا مگر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ تم مت خیال کرنا کہ میری تو دعوت ہے ۔ دعوت وہ ہے جس میں تکلف کیا جائے وقت ضائع ہو میزبان بھی پریشان اور مہمان بھی ۔ اور جو اللہ تعالیٰ نے دیا سب نے مل کر کھایا یہ دعوت تھوڑا ہی ہے ۔ مولانا ظفر حسین صاحب کا ندھلہ میں ایک بزرگ تھے درویش بھی تھے زمیندار بھی تھے ۔ طرز ایسا تھا کہ کوئی انکو عالم نہ سمجھتا ان کے عجیب وغریب معمولات ہیں کھانے کے متعلق ۔ ان کے قرابت دار مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی دہلی کے مدرسہ میں مدرس تھے ۔ دہلی سے نانوتہ کا یہی راستہ تھا جس پر چھوٹی لین گئی ہے ۔ کاندھلہ راستہ میں واقع ہوتا ہے ۔ مولانا ظفر حسین صاحب نے ان سے شکایت کی کہ جب کبھی آپ آتے ہیں تو بلا ملے چلے جاتے ہیں ۔ مولانا مملوک علی صاحب نے فرمایا کہ اگر اصرار نہ کیا جائے ٹھہر نے کا تو میں آجایا کروں ۔ اس وقت بہلی میں سفر ہوتا تھا ۔ اس روز سے معمول ہوگیا کہ کاندھلہ پہنچ کر جنگل میں بہلی چھوڑ کر مولانا مظفر حسین صاحب سے ملنے آتے پھر وہ ان کو پہنچانے آتے ایک دفعہ جب وہاں پہنچے تو اول سوال یہ تھا کہ کھانا کھاؤ گے یا کھاکر آئے ہو ۔ اور اگر کھاؤ گے تو رکھا ہوا کھاؤ گے یا تازہ پکوا دیا جائے ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ رکھا ہوا کھاؤں گا ۔ا بس ایک برتن میں کھچڑی کی کھڑچن لاکر رکھ دی کہ رکھا ہوا تو یہ ہے انہوں نے وہی کھالی ۔ شریعت کی عجیب تعلیم ہے ارشاد : عجیب تعلیم ہے شریعت کی حکم ہے کہ جو کوئی مریض کی عیادت کو جائے تو تھوڑے دیر کو بیٹھے تاکہ اس کو کلفت نہ ہو ۔ ہم لوگوں کو یہ خبر ہی نہیں کہ ہمارے یہاں کیا کیا ہے اور حکم ہے کہ اگر کسی جگہ تین آدمی ہوں تو دو شخص سرگوشی نہ کریں ۔ البتہ تیسرا چلا جائے تو اس وقت سرگوشی کر لیں تاکہ اس کا دل برانہ ہو کہ مجھ کو اجنبی سمجھ کر مجھ سے اخفا کیا گیا یونان کے بڑے بڑے حکماء گزرے ہیں کسی کے دل میں ایسی بات ہی نہ گزری ہوگی ۔ میں ایک موقعہ پر بہت شرمندہ ہوا ۔ ایک صاحب نائب تحصیلدار میرے پاس آئے اور مجھ سے ایک عربی مدرس کی تجویز کے لئے فرمائش کی میرے پاس اس وقت ایک منتہی طالب علم عربی سبق پڑھتے تھے ان کو بھی تلاش تھی نوکری کی میں ان طالب علم سے استفسار کیلئے عربی میں گفتگو کرنے لگا مجھ کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ نائب تحصیلدار صاحب عربی سمجھتے ہیں ۔