ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
تفصیل سے بیان کیا ہے پھر انہی صاحب نے کہا کہ یہ جو آیت وذالنون اذھب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ ۔ اس کے کیا معنی ہیں ۔ ظاہری معنی تویہ ہیں کہ یونس نے گمان کیا کہ ہم ان پر قادر نہ ہوں گے اور یہ ان کی شان کے بلکل خلاف ہے اور مغاضبا کا کیا مطلب ہے ۔ حضرت نے فرمایا قدر کے معنی ضیق کے ہیں ۔ یعنی فظن ان لن نضیق علیہ ۔ مطلب یہ ہے کہ یونس نے گمان کیا کہ ہم ان پر اس معاملہ میں (یعنی قوم میں سے نکل جانے میں ) کوئی گرفت نہ کریں گے اس لئے نکل گئے اور قدر کے معنی ضیق کے ہیں اور دوسرے موقع پر خود کلام اللہ میں موجود ہیں یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر ۔ اور مغاضبا اے مغاضبا لقومہ ۔ پھر ان ہی صاحب نے کہا کہ تصوف میں سوائے مکارم اخلاق کے اور کچھ بھی ہے ۔ تصوف میں احوال ومواجید مقصود نہیں اس ٌپر فرمایا یہ تو ایسا سوال ہے کہ کوئی یوں کہے کہ حج میں سوائے حاضری عرفات کے اور بھی کچھ مقصود ہے پھر حضرت نے فرمایا کہ تصوف میں مقصود تہذیب اخلاق ہے اور باقی چیزیں مقصود نہیں جن کو احوال مواجید کہتے ہیں وہ مقصود نہیں ہیں ۔ ہوں ، ہوں ، نہوں نہوں جیسے حج میں جدہ وغیرہ کی سیر کہ وہ کوئی مقصود نہیں ہو ہو ، نہو نہو ۔ پھر ان صاحب نے کہا کہ مکارم اخلاق مکتسب ہیں یا غیر مکتسب ہیں ۔فرمایا مکتسب ہیں جیسے ایمان ہی کا ایک درجہ ہے ۔ ایمان ہی کے ایک درجہ کا نام ہے تصوف ۔ اور وہ مکتسب ہے ۔ لوگوں نے تصوف کو ہوا بنادیا ہے ۔ کتاب وسنت کی تعلیم پر پورا عمل کرے یہی تصوف ہے کتاب وسنت کی تعلیم پر پورا عمل کرے بس یہ ہے تصوف آجکل احوال کو لوگ بہت کچھ سمجھتے ہیں وہ ارکان نہیں ہیں امور زائد ہیں وہ ہوں یا نہ ہوں ۔ ایک صاحب نے حاضرین میں سے عرض کیا کہ احوال مواجیدو ہی ہیں جو امور طبیعہ ہیں ۔ اس پر فرمایا امور طبیعہ سے تعبیر کرلیجئے مگر ہیں غیر اختیاری جیسے غذا کا کھانا تو اختیاری ہے ۔ لیکن اس پر احوال کا مرتب ہونا یہ غٰیر ختیاری ہے مثلا دو شخص ہیں انہوں نے ایک ہی غذا کھائی ہے اور ایک ہی مقدار سے کھائی ۔ ایک تو غذا کھانے کے بعد خمار پیدا ہوا ۔ طبیعت پر بار ہو گیا ۔ اور عوارض پیش آئے اور دوسرا شخص ہے کہ اس کو ایس غذا کے کھانے سے بار ہوانہ گرانی ۔