ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
دردا کہ طبیب صبر مے فرماید ٭ دیں نفس حریص را شکرمی باید فرمایا کہ جو میں بتلاتا ہوں قرآن و حدیث کی بات بتلاتا ہوں ـ یہ اعتراض مجھ ہی تک محدود نہیں خدا و رسول تک بات پہچتی ہے کہ تو یوں فرمائیں اور نفس کو یہ چاہئے گویا نفس کے موافق بتلاؤ اس کے تو یہ معنی ہیں کہ نفس اگر شکر چاہے تو اس کو شکر دینی چاہئے گویا نفس کے تابع ہونا چاہئے جیسے وہ کہے ویسے کریں خدا و رسول کا فرمانا کچھ بھی نہ ہوا ـ سبحان اللہ کیا وقعت کی خدا و رسول کی ـ حضرت کے مواخذہ کرنے پر نہوں نے کہا کہ مجھ سے خطا ہوئی توبہ کرتا ہوں اور جو پرچہ لکھ کر لائے تھے انہوں نے اس کو ردی خطوط میں جو حضرت کے پاس رکھے ہوئے تھے دور سے اس میں ڈال دیا حضرت کے ہاتھ میں نہ دیا حضرت نے اس پر ملفوظات ذیل بیان فرمائے ـ اطاعت میں کمی ہونے پر دنیا کی عقل بھی مسخ ہو جاتی ہے ارشاد : پرچہ ردی میں کیوں ڈالا ہاتھ میں کیوں نہیں دیا ـ یا علیحدہ سامنے کیوں نہ رکھا کیا یہ بے تمیزی نہیں دیکھو یاد رکھو طاعت میں کمی ہوتی ہے خدا رسول کی تو دنیا کی عقل بھی مسخ ہو جاتی ہے تمہارے قلب کا ستیاناس ہو گیا اتنی بڑی موٹی غلطی ( کہ پرچہ ردی میں ڈالدیا ) حالانکہ اس وقت یہ پرچہ ہی مطلوب ہے دیکھو خدا و رسول کی مخالفت سے عقل جاتی رہتی ہے ـ ابن القیم کا رسالہ ہے اس میں انہوں نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ معصیت سے دنیا کی عقل بھی مسخ ہو جاتی ہے ـ واقعی بات ہے کہ نا فرمانی کرنے والے بڑی بڑی غلطیاں کرتے ہیں اور تم جو کہتے ہو کہ توبہ کرتا ہوں تو توبہ سے گناہ تو معاف ہو گیا مگر مادہ تو نہیں اکھڑا ـ جیسے کوئی گڑ کھائے اور مریض ہو کر طبیب کے پاس جا کر کہے کہ گڑ کھانے سے توبہ کرتا ہوں تو طبیب کہے گا کہ توبہ تو کر لی مگر جو کھایا ہے اس کا کیا ہو گا وہ مادہ تو موجود ہے ـ پھر حضرت نے ان پر بہت ہی ناراضگی ظاہر فرمائی ـ اور ان کے عاجزی اور انکساری کرنے پر فرمایا ـ تم ہی سوچ کر اپنا علاج لاؤ جہاں تک تمہاری نظر ہو ـ پھر ہم اس میں اصلاح کر دیں گے ـ چنانچہ وہ اٹھ کر چلے گئے ان کے پس غنیمت حضرت نے حاضرین سے فرمایا لوگ کہتے ہیں نرمی کرنی چاہئے مگر جب خدا رسول کے بارہ میں ایسے کلمات ہوں تو میں کیا کروں جب میں سمجھوں کہ اس مرض کا یہی علاج ہے ( یعنی سختی ) تو میں سختی کیسے نہ کروں ہر ایک کا علاج جدا