ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
سے سیرابی ہوئی ایسے ہی اور اسباب کو سمجھئے ۔ صرف یہ عقیدہ رکھنا کہ اسباب موثر بالذات نہیں بلکہ خدا کے پیدا کردینے سے اس میں اثر ہوا ہے ۔ اس کوئی حرج نہیں ۔ اور مسلمانوں میں سے ہر ادنیٰ اعلیٰ کا یہی عقیدہ ہے بخلاف حکمائے یونان اور اہل سائنس کے کہ ان کا عقیدہ اس کے خلاف ہے اور شرک تک پہنچتا ہے ۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ خدا نے جوقانون بنادیا ہے اس کے خلاف نہیں کرسکتے جیسے گھڑی کوکوک دیا کہ وہ کوکنے پر ایک ہی طرز سے چلی جاتی ہے اس کے خلاف نہیں ہو سکتا ۔ مثلا سردی کے دفع کا سبب لحاف وغیرہ ہے ۔ اہل سائنس کا یہ اعتقاد ہے ۔ کہ بس سردی اسی سے جائے گی ۔ اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ ذریعہ سردی دور ہونے کا ضرور ہے ۔ مگر خدا تعالٰٰی دوسری طریقہ سے بھی دفع کرسکتے ہیں ۔ اورلحاف وغیرہ موثر بالذات نہیں کہ بلا اس کے سردی دفع ہی نہ ہو ۔ خلاصہ یہ کہ یوں اعتقاد رکھنا کہ چیزوں میں آثارخدائے تعالٰٰی کے رکھے ہوئے ہیں اور کوئی چیز موثر بالذات نہیں ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اور مسببات کو اسباب پر مرتبہ ماننے کی عمدہ دلیل یہ آیت ہے ۔ وھو الذی انزل من السماء ماء فاخرجنا بہ نبات کل شیء : دیکھئے اس آیت میں نسبت تسبب کی بارش کی طرف فرمائی ہے کہ بسبب اس کے ہم نے ہر چیز کو نکالا ۔ سونے چاندی کا بٹن لگانے کا مسئلہ واقعہ : ایک صاحب نے دریافت کیا کہ سونے اور چاندی کے بٹن لگانا کیسا ہے اور ان میں زنجیریں ڈالنا کیسا ؟ ارشاد : ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس میں حرج نہیں ہے فقہاء کی یہ عبارت ہے ۔ لا باس باز را والذھب لانہ تابع: توزرمیں بٹن کو داخل کرتے ہیں مگر قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی نے ناجائز بیان کیا ہے ان کا بیان یہ ہے کہ زر کے معنی گھنڈی کے ہیں جس سے مراد وہ گھنڈی ہے جس پر کلابتوں لپٹنا ہوتا ہے بٹن مراد نہیں اسی واسطے میں دونوں قول نقل کردیتا ہوں ۔ اور قاری صاحب کی بات ہے دل لگتی ہوئی ۔ کیونکہ تبعیت کی شان گھنڈی میں زیادہ ہے بٹن میں نہیں ۔ اس لیے احتیاط قاری صاحب کےمسلک میں ہے ۔ زنجیروں میں تو تبعیت ک شان ہی نہیں وہ کیسے جائز ہوں گی ۔ ہاں ان کو تابع کا تابع کہ سکتے ہیں جس سے مقصود حاصل نہیں ہوتا ۔