ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
کے پاس عرض بھیج دیں وہاں تو ذراسی بات کے لئے سو اہتمام کریں گے ۔ خود جائیں گے یہاں تک حالت ہوگئی ہے کہ عورتیں بھنگیوں کی معرفت ہی مسائل پوچھ پوچھ بھیجتی ہیں بھلا وہ کیا سمجھ سکتی ہیں اور پھر کیا سمجھا سکتی ہیں بات یہ ہے کہ قلب میں دین کی اور علماء کی وقعت نہیں اور ایسے موقعوں پر جو کہا گیا تم خود پوچھ لو تو دریافت کرنا ہی بند ہوگیا ۔ ایک عورت نے طاعون کے زمانہ میں پوچھ کر یہ بھیجا کہ طاعون میں ایک وقت میں بہت آدمی مرتے ہیں عزرائیل ایک وقت میں اتنوں کی جان کیسے قبض کرتے ہوں گے دریافت کرایا ایک بچہ کی معرفت میں نے سوچا کہ یہ بچہ ایسی باریک بات خود ہی نہیں سمجھ سکتا ان کو جاکر کیا سمجھائے گا جواب تو یہ تھا کہ یوں کہلا دیتا کہ خود آکر پوچھ مگر خیراب ایک جواب سہل سوجھ گیا میں نے اس سے کہا کہ اپنی اماں سے یوں کہد دیجیئو کہ کبھی چاول بھی کھائے ہیں ۔ ایک دم سے کتنے چاول رکابی میں سے اٹھا لیتی ہو ۔اس طرح عزرائیل علیہ السلام ایک دم سے سب کی روح قبض کرلیتےہیں وہ بچہ بھی اس بات کو بخوبی سمجھ گیا اور اس نے اپنی ماں سے جاکر کہا اس پر اس کی مان نے شکر ادا کیا ۔ خیال تو کئجئے بچہ کی معرفت ایسی باریک باتیں دریافت کی جاتی ہیں بلک باریک بات اپنے فہم سے زیادہ تو پوچھنا بھی بیہودگی ہے اور اصل جواب اس کا یہی ہے جیسے ایک شخص کو مولانا محمد یعقوب صاحب نے فرمایا تھا ۔ اس نے دریافت کیا کہ اس کیا وجہ ہے کہ حیض کی حالت میں جو نماز نہیں ہوتی اس کی قصاء نہیں ہے اور روز قضا ہوتو اس کو رکھنا ہوتا ہے حضرت مولانا تھے صاحب جلال ۔ اس شخص کو جواب دیا کہ وجہ اس کی یہ ہے اگر اس کے خلاف کرو گے اتنی جوتیاں لگیں گی کہ سرپا بال بھی نہ رہے گا ۔ ویسے مولانا طلباء کو جواد دیتے ہیں ہی ۔ مگر اس شخص کے مناسب یہی تھا ۔ 18 شوال المکرم 1336 ھ واقعہ : ایک صاحب نے دریافت کیا کہ بندواگر افطاری میں مٹھائی بھیجے تو اس کا کھانا کیسا ہے اور واقعہ بیان کیا کہ ایک ہندو نے بھیجی تھی اور ایک مولوی صاحب نے لے بھی تھی اور کہا تھا کہ کوئی حرن نہیں اورمیں اس کے خلاف تھا ۔ ارشاد : فتویٰ کی رو سے جواز تو گھر مجھ کو غیرت آتی ہے کہ آئندہ یوں کہنے لگیں گے کہ اگر ہم مددنہ کرتے کیسے بہار ہوتی مسجد میں ایسے موقعہ پر ان کے شریک کرنے دو خرابیاں ہیں ایک تو امتنان )کافر کا احسان ) دوسرے مسلمانوں میں کرم غالب ہے سوچتے سمجھتے ہیں نہیں