ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
معاشرت کا عجیب بیان ارشاد : لوگ حسن معاشرت کو دین نہیں سمجھتے جہ یہ ہے کہ نماز روزہ کی تو شکل بھی دین کی ہے اس لئے اس کو دین سمجھتے ہیں ۔ اور معاشرت کی صورت ہے دنیا کی سی اس لئے اس کو دین نہیں سمجھتے ۔ ایک مولوی صاحب میرے یہاں مہمان ہوئے ان کو کھانا بھیجا گیا ۔ انہوں نے ایک کو اور شریک کر لیا اور وہ حضرت بھی بیٹھ گئے حالانکہ وہ بھی مولوی تھے ( نیاز اور عبدالستار ملازمان حضرت والا ) ہیں تو سیدھے مگر ہیں بہت متقی ان کو ناگوار ہوا ۔ وہاں تو کچھ نہیں کہا مجھ سے آکر کہا میں نے کہا کہ نہ میری طرف سے کہنا نہ اپنے نام سے کہنا تم اتنا کہنا ہم نے مولانا سے یوں سنا ہے کہ دوسرے کو شریک کرنا جائز نہیں ہے فتوٰی میری طرف سے ہوجائیگا اور خطاب تمہاری طرف سے ۔ چنانچہ انہوں نے اسی طرح سے کہا حیرت کی بات یہ ہے کہ انکو کہنے پر بھی تنبیہ نہ ہوئی کہنے لگے کہ میں خود گفتگو کرلوں گا ۔ عوام کا تو مضائقہ نہیں تعجب اس لئے ہوا کہ وہ مولوی تھے بے تکلفی ہو تو بھی خیر وہ تو محض مسافر شخص تھے اجنبی ۔ میں منتظر رہا کہ اب پوچھیں گے ازخود ذکر کرنا میں نے انہوں نے پوچھا اور وہ ملاقات کے لئے آئے تھے ۔ اصلاح کی غرض سے نہیں آئے تھے ورنہ میں خود تنبیہ کرتا خیر انہوں نے پوچھا میں نے کہا یہ تو ظاہر ہے آپ تو عالم ہیں مدرس ہیں یہ تواباحت ہے تملیک نہیں اور اباحت میں ایسا تصرف جائز نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سمجھا کھانا زیادہ ہے دوسرے کیلئے بھی اجازت ہوگی ۔ میں نے کہا کہ یہ دلیل اجازت نہیں زیادہ کھانا مہمان کے لیے اس لئے جائز نہیں بھیجتےکہ دوسرے کو شریک کرے بلکہ گھر والے مہمان کو اپنے سے مقدم سمجھتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ کمی نہ رہے پھر جو اس سے بچے تو گھر والے اس کے مالک ہیں جو بچتا ہے گھر میں خرچ ہوجاتا ہے بزرگوں کو سامنے کا خود بھی کھالیتے ہیں ۔ ورنہ نوکر چاکر کھالیتے ہیں ۔ فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر دو جگہ دسترخوان ہوں ۔ تو ایک کا کھانا دوسرے پر دینا جائز نہیں ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر شریعت کا حکم بھی نہ ہوتا تب بھی طبع سلیم کہاں جائز رکھتی ہے ۔ ہاں اگر کہیں بے تکلفی ہو کہ ایسے تصرف سے مالک کا جی خوش ہوتا ہو کھانے سے وہاں مضائقہ نہیں ہے ۔