ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
شخص اپنے زعم میں سمجھ رہا ہے کہ ہم پر جرم عائد نہیں ہوتا کیا خبر ہے کہ وہ زعم حاکم کے روبرو صحیح ثابت ہوگا ۔ یا غلط چنانچہ اللہ تعالٰٰی خود مجرمین کو جتلائیں گے ۔ فاتخذ تموھم سخریا حتیٰ انسوکم ذکری وکنتم منھم تصحکون انی جزیتھم الیوم بماصبروا انھم الفائزون ۔ اور اس سے اور بات بھی معلوم ہوئی کہ اس میں عباد مقبولین کا فعل صبر فرمایا انتقمو ۔ نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی ایذا پر صبر کرنا چاہیے نہ کہ انتقام ۔ ایک شخص نے میرے پاس لکھا تھا کہ ایک شخص نے آپ کو گالیاں دیں میں نے اس کو خوب برا بھلا کہا ۔ آپ دعا کیجئے کہ اس شخص کی اصلاح ہوجائے میں نے جواب میں لکھا کہ آُپ پہلے اپنی اصلاح کیجئے کہ آپ نے برا بھلا کہا میں نہیں چاہتا کہ میرے بارہ میں دوفرقے ہوں اس عمل سے تو دو فرقے ہوجائیں گے ۔ ایک برا کہنے والا ۔ اور ایک بھلا کہنے والا۔ پھر دونوں میں خوب لڑائی ہوگئی ۔ فرقہ بندی ہوگی ۔ اس سے تو ہم توبہ توبہ ابوبکر عمر رضی اللہ تعالٰٰی عنھما کے درجہ میں ہوگئے کہ ان کے بارہ میں دو فرقے ہیں نبی کا انکار تو بیشک کفر ہے اور صحابہ وغیرہ ہم کا انکار فسق ہے ۔ باقی جس کی کشتی خود ہی ڈانو ڈول ہے اس کیلئے مجلس بنانا کتنی حماقت ہے ۔ واقعہ : ایک صاحب نے سوال کیا کہ حدیث میں ہے ،، لاعدوی ،، یعنی مرض کا تعدیہ نہیں ہوتا اس کے کیا معنی ہیں کیا تعدیہ بالکل منفی ہے ۔ ارشاد : دو حدیثیں ہیں ایک تو لاعدویٰ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعدیہ امراض کا نہیں ہوتا اور دوسری حدیث ہے ،، فرمن المجذوم کما تفر من الا سد ۔،، کہ جذامی سے ایسے بھا گو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ۔ یہ ابن ماجہ کی روایت میں ہے اس سے ظاہر بعض کا تعدیہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں دو وجہ تطبیق کی ہیں بعض تو عدوی کے قائل ہوئے ہیں کہ امراض میں تعدیہ ہوتا ہے اور لاعدوی میں تاویل کی ہیں وہ یہ کہ امراض کی ذات میں تعدیہ نہیں ۔ جیسے کہ اہل سائنس بالذات تعدیہ کے قائل ہیں کہ امراض کی ذات میں تعدیہ نہیں ۔ جیسے کہ اہل سائنس بالذات تعدیہ کے قائل ہیں کہ امراض کی ذات میں تعدیہ ہے لا عدوی میں اس کی نفی ہوتی ہے ۔ باقی جہاں خدا تعالیٰ کا حکم تعدیہ کا ہوتا ہے ۔ وہاں تعدیہ ہوجاتا ہے اور بعض نے لاعدوی کا مطلق کہا ہے ۔ کہ تعدیہ بالکل ہوتا ہی نہیں ہے باقی مجذوم والی حدیث میں جو بچنے کو فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس جانے والے گو اگر اتفاق سے یہ مرض ہوگیا ۔