ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
حضرت والا کا ور ود کانپور میں واقعہ : ذکر اس پر تھا کہ درسیات کے ساتھ کلام اللہ حفظ کرنا پڑا دشوار تھا ـ ارشاد : یہ تو تنہا ہی ٹھیک ہے یہ حق تعالی کا کلام ہے جیسے ان کی ذات وحدہ لا شریک ہے کہ کوئی ان کے ساتھ شریک نہ ہو ایسے ہی ان کا کلام ہے کوئی کام ہوتا ہی نہیں مگر مطلب یہ ہے کہ ایسے کام کا جس میں کہ قوت فکر یہ صرف کرنا پڑے اس کے ساتھ اجتماع مشکل ہے ـ واقعہ : خواجہ عزیزالحسن صاحب کیلئے حضرت نے چلہ خاموشی تجویذ کیا تھا ـ ایک شخص اور بیٹھے تھے ان کی بابت خواجہ صاحب نے کہا کہ ان کا بھی یہ ارادہ ہے ـ سلوک میں ہر ایک کی تدبیر جدا ہے ارشاد: جو خود ہی پہلے سے کم بولتا ہو اس کو اس کی ضرورت نہیں ہر ایک کیلئے ایک ہی دوا تھوڑا ہی ہے ـ پنساری کے ہاں دوائیں مختلف ہوتی ہیں کوئی کسی کیلئے کوئی کسی کیلئے اور اگر ایسے ہی مصلحت ہوئی تو آٹھ دس دن کے واسطے کر لیا جائیگا ـ واقعہ : خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ کیا میں کلام بہت کرتا ہوں اگر ایسا ہے تو میں ابھی سے کلام میں کمی کروں چلہ پر کیا موقوف ہے ـ اس فرمایا ـ ارشاد : مجھے اہتمام کرنا مشکل ہے ورنہ ایک دن گنوا دیتا کہ کتنی کثرت سے آپ کلام کرتے ہیں کمی کرنے کی صورت یہ ہے کہ ذکر و شغل کو اپنا اصل کام سمجھا جائے جیسے کسی نے قرآن شریف کی تلاوت کرنی شروع کی ہو تو وہ لا یعنی کلام نہ کرے گا ـ ایسے جب ذکر و شغل کو مقصود سمجھ لیا جائے گا تو لا یعنی کلام سے بچے گا اگر بغیر ذکر و شغل ایسا کیا تو جی گھبرائیگا خاموش رہنے سے ـ ( '' سفر نامہ ختم ہوا بفضل اللہ وتو فیقہ ،،) تنبیہ میں 26 ربیع الاول 1337ھ کو کانپور میں حضرت والا سے رخصت ہو کر بجنور چلا آیا وجہ اس کی یہ تھی کہ حضرت والا فتح پور پیرانی صاحبہ کے دیکھنے کو تشریف لے گئے اور حضرت نے یہ فرمایا کہ میں آج فتح پور جا کر کل شام کو سیدھا روانہ تھانہ بھون ہو جاؤں گا ـ اور بظاہر وعظ ہونے کا خیال نہ تھا ـ اور خواجہ صاحب ہمراہ بھی تھے اس لئے مجھ کو ہمراہ جانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس لئے