ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ایک شخص حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص فلاں کام شرک کا کررہا ہے ۔ اور اس نے یہ بنظر تحقیر کہا تھا ۔ حضرت نے فرمایا کہ میان بیٹھ بھی جس وقت اپنی حقیقت کھلے گی تو سب بھول جاؤ گے اور اپنے کو کافر سے بھی بدتر سمجھو گے ۔ دوسرے کے عیوب کی طرف نظرہی نہ ہوگی ۔ بات یہ ہے کہ حال کی چیز قال سے سمجھ میں نہیں آتی ۔ جب حال کے درجہ میں آئے تو سمجھ میں ائے اہل حق کو اہل باطل پر ترفع بیشک ہے ۔ مگر ان کو ترساں ولرزاں رہنا چاہئے اور ان کو حقیر اور اپنے کو بڑا نہ سمجھنا چاہئے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی شہزادہ نے جرم کیا اور وہ سزائے بید کا مستحق ہوا بادشاہ نے بھنگی کو حکم دیا کہ اس کے بید لگائے دیکھئے کہ وہ بھنگی باوجود بیدلگانے کے اپنے کو حقیر اور شہزادہ کو بڑا سمجھتا ہے اور اس کی اہانت نہیں کرتا ۔ بھنگی کو اپنی بڑائی کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔ اور کیوں نہیں ہوتا ۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ میں بھنگی ہوں ۔ اور ڈرتا ہے کہ اگر سیاست کے ساتھ شہزادہ کی اہانت کروں گا تو بادشاہ معلوم نہیں کیا کچھ کر ڈالے اسی طرح اہل حق چاہیے کہ ترساں لرزاں رہیں باطل کو حقیر اور اپنے کو بڑا نہ سمجھیں ۔ ارشاد : انبیاء کے علوم میں سے ایک علم امثلہ بھی ہے جو عارفین کو بھی مرحمت ہوتا ہے اس لئے احادیث میں امثلہ بہت حضرت علی کا واقعہ یہاں بیان کرتا ہوں ۔ ایک ملحد نے آپ سے سوال کیا کہ انسان میں اختیار و جبر کیسے جمع ہوسکتے ہیں آپ نے ڈیڑھ بات میں اس کو سمجھا دیا ۔ وہ کھڑا تھا اس سے کہا کہ اپنا ایک پاؤں اٹھاؤ اس نے اٹھا لیا آپ نے فرمایا کہ دوسرا بھی اٹھاؤ وہ نہیں اٹھا سکا ۔ آپ نے فرمایا کہ بس اتنا مجبور ہے اور اتنا مختار ۔ اختیار بھی ہے اور جبر بھی ہے آپ نے کیسا مثال سے سہل کردیا ۔ا یک اورملحد نے آپ سے سوال کیا تھا معاد کے بارے میں جس کا وہ منکر تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ کم ازکم حشر اجساد محتمل تو ہے تو احوط بھی ہے کہ اس کے وقوع کا اعتقاد رکھیں ۔ کیونکہ اگر حشرنہ ہو اور ہم اس کے قائل رہے تب تو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس کے کیوں قائل ہوئے تھے ۔ اور اگر حشر ہوا اور تم منکر ہوئے تو پھر باز پرس ہوگی اسی کو کسی نے نظم بھی کردیا ۔ قال المنجم والطیب کلاھما لایحشر الا جساد قلت الیکما ان صح قولکما فلست بخامر او صح قولی فالخسار علیکما بزرگوں کے علوم یہ تھے ان کی نظر حقائق پر تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ مخاطب کو کسی طرح نفع ہو اپنے کو بڑھانا منظور نہ تھا جیسے آجکل بلا پھیلی ہوئی ہے ۔