ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
تھے ۔ صاحب خانہ نے حکم دیا کہ کھانا ان کو بھی دیا جائے ۔ چنانچہ پلاؤ وغیرہ سب دیا گیا ۔ خیر تاک مار کرکھالیا کچھ بولے نہیں مگر جب فیرینی کی نوبت آئی تو چمار کیا کہتے ہیں یہ کیا ہے تھوک سا ۔ ان کو شرینی مدرک ہی نہیں ہوئی ۔ پس یہی حالت ہے ان لوگوں کو جو کیفیات نفسانیہ کے خوگر ہیں ان کو کیفیات روحانیہ کا ادراک ہے نہیں ۔ لوگ نفسانی کیفیتوں کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ۔ ایک شخص کا خط آیا تھا کہ حج سے پیشتر رونا آتا تھا ۔ حج کے بعد رونا نہیں آتا ۔ میں نے جواب لکھا کہ آنکھ کا رونا مقصود نہیں دل کا رونا مقصود ہے اور یہ دل کے رونے کی علامت ہے کہ آپ کو افسوس ہورہا ہے کہ رونا کیون نیہں آتا ۔ مریض کو بعض وقت اطلاع زوال مرض کی نہیں ہوتی اور طبیب جانتا ہے کہ اب مرض میں کمی ہے اور مریض ضعف ہو جانے سے سمجھتا ہے کہ مرض میں کمی نہیں ۔ طبیب اپنی تسلی ڈھونڈتا ہے گو مریض کو تسلی نہ ہو ۔ بس پھر امور ہیں کہ مبتدی کو ان کا ادراک نہیں ہوتا اورمنتہی کو ادراک ہوتا ہے ۔ مولانا گنگوہی کے ایک مرید تھانہ بھون میں تھے وہ ہمیشہ شکایت کیا کرتے تھے کہ یہ نہیں ہوتا وہ نہیں ہوتا ۔ مولانا تسلی فرمادیا کرتے وہ میرے پاس آئے میں نے بھی تسلی کردی ایک روز کہنے لگے کہ مولانا یوں ہی تسلی کردیتے ہیں میرا گمان بھی ہے کہ جی برا ہونے کے خیال سے فرمادیتے ہیں ۔ مگر واقع میں یہ حال اچھا نہیں ۔ میں نے کہا توبہ کرو کیا مولانا نعوذباللہ جھوٹے ہیں ۔ کیا شیخ خائن ہوتا ہے کہ برے حال کو اچھا بتلادے مگر بات یہ ہے کہ وہ سمھتا ہے تم سمجھتے نہیں ۔ اور نہ ابتداء میں مرید سمجھ سکتا ہے ۔ چند روز تک تو جس طرح شیخ کہے اس کو تقلیدا ماننا ہی چاہیے ۔ پھر وہی تقلید مفضی الہی التحقیق ہوتی ہے اس کی ایسی مثال ہے جیسے استاذ بچہ سے کہے کہ الف ۔ تو اس صورت میں دلیل کا مطالبہ نہ کرے کہ کا ہے سے معلوم ہوا کہ الف ہے اور یہ بے ہے ۔ بلکہ محض تقلید کرے پھر بعد چندے اس کو ایسا یقین ہوجائیگا ۔ الف کے الف ہونیکا کہ اگر سارا جہاں بھی الف کو بے کہے تو وہ یقین نہ کرے گا ۔ بلک اب عام طور سے لوگ اس میں مبتلا ہیں کہ شیخ اگر کچھ کہے تو اس قیل وقال نکالتے ہیں ۔ حالانکہ یوں چاہیے کہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے مان لیں ۔ ،، قلندر انحہ گوید دیدہ گوید ۔ ،، اور ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ردنہ کرے اور راز اس میں یہ ہے کہ اس طریق (سلوک ) میں بڑی شرط ہے مناسبت اور مناسبت دلائل سمجھنے سے نہیں ہوتی بلکہ عمل سے ہوتی ہے جب مناسبت ہوگئی تو فن کو سمجھنے لگے اور اگر حجتیں کرے گا تو حقیقت سے دور ہوتا جائیگا جیسے ایک حافظ جی کا قصہ ٹیڑھی کھیر کا ہے وہ یہ ایک حافظ جی نابینا