ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
بھی کردیا ہے ) چونکہ حضرت کو ایسے القابات سے جن میںب مبالغہ ہو تعظیم میں نہایت نفرت ہے اسی لئے فرمایا ہے : ارشاد : سید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں آقا کو ۔ مجھ کو تو آقا بنایا اور اپنے کو غلام ۔ اور غلام کے معنی ہیں کہ جو چاہو اس میں تصرف کرووہ تو مولا کی ملک ہی ہوتا ہے ۔ حالانکہ مرید کہیں غلام تھوڑا ہی ہے یہ مبالغہ ہے تعظیم میں اتنی تکلیف قبلہ وکعبہ سے نہیں ہوتی کیونکہ مجاز ہے ۔ اور متکلم کے نزدیک حقیقت پر محمول ہے خواہ ادعاءّ یہی ہو ۔ عنوانات کے آثار قلب پر محسوس ہوتے ہیں ۔ ان القاب سے مجھ کو بہت گرانی ہوتی ہے ۔ میں تکلیف کو پسند نہیں کرتا ۔ لوگ مجھ کو حضرت حضرت کہا کرتے تھے ۔ مجھ کو نا گوار ہوتا تھا میں نے منع کردیا ۔ مولوی صاحب کہدیں مولانا صاحب کہدیں ۔ سیدی الفاظ وغیرہ سے مجھ کو تکلیف ہوتی ہے ۔ باقی میں فتوٰی نہیں دیتا ۔ احادیث میں مبالغہ کی ممانعت آئی ہے ۔ جن الفاظ میں حقیقت کی شان ہوتی ہے ان سے مجھ کو تکلیف ہوتی ہے اور مولانا اور مولائی میں فرق ہے ۔ مولائی کا لفظ استعمال میں سخت ہے عرفا بہت تعظیم کے وقت کہا جاتا ہے ۔ حقیقت دیکھنا چاہیئے اسی طرح مجھ کو ہاتھ چومنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ جھکنا وغیرہ سب تکلفات ہیں ۔ بوجہ رواج کے لوگوں پر گراں نہیں ہوتے ۔ ورنہ بہت ہی گراں ہیں ۔ بزرگوں کے سامنے سے جوکھانا اٹھا کر ان ہی کے سامنے کھاتے ہیں میں تو اس طریقہ متعارف کے بھی خلاف ہوں کیونکہ جس کے سامنے سے تبرک سمجھ کر کھانا لیا ہے اگر وہ متکبر ہے تو اس کا تکبر بڑھتا ہے اور اگر متواضع ہوتو اس کو اذیت ہوتی ہے ۔ بلکہ یوں کیا جائے کہ جب کھانا اٹھ جائے تو مالک سے مانگ لے ۔ سامنے سے لے کر کھانا چاٹنا ٹھیک نہیں یہ باتیں اول وہلہ میں ایسی ہی ہلکی سی معلوم ہوتی ہیں غور کرنے سے ان کی حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔ یہی قصہ پانی میں ہے کہ جہاں کسی بزرگ نے پانی پیا اور لوگوں میں اس کا دور چلا اس میں علاوہ محذور مزکور کے خاص میری طبیعت میں ایک اور بات ہے وہ یہ کہ میرا دل کسی کے سامنے کے کھائے پئے ہوئے سے منقبض ہوتا ہے ۔ البتہ بچا کچا کھانا صاف ستھرا ہوتو کھالیتا ہوں ورنہ نہیں کھا سکتا ۔ یہ طبعی بات ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے اور لوگ بھی ایسے ہوں جیسی میری طبیعت ہے ۔ مگر وہ شرما حضوری کھا لیتے ہوں گے تاکہ دوسرے لوگ یہ نہ کہیں کہ ان کو اعتقاد نہیں طبیعت نہ قبول کرتی ہوگی ۔ یہ