ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
واقعہ : ایک شخص پانی پڑھوانے لائے اور دور سے کہا کہ پانی پڑھ دو ۔ اور صاف لفظوں میں کہا بھی نہیں اس طرح کہا کہ جس کا سمجھنا بھی دشوار تھا ۔ ارشاد : تکلفات اور سوم نے معاشرت کا ناس کر رکھا ہے مجھ کو مبہم بات سے ایسی پریشانی ہوتی ہے کہ بیان نہیں کرسکتا ۔ زیادہ نہ بولنے کو ادب خیال کرتے ہیں یہ تکلفات ایرانیوں سے سیکھی ہیں ۔ مبہم بات سنت کے بھی خلاف ہے حضورصل علیہ وسلم کا کلام کتنا واضح ہوتا تھا ۔ مگر پھر بھی تین تین بار فرماتے ہیں ۔ صاف کلام کرنا سنت ہے ۔ چنانچہ دیکھئے حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آکر حضور صل اللہ علیہ وسلم کو پکارا آپ نے فرمایا کون ہے ۔ اس نے کہا انا کہ میں ہوں آپ نے فرمایا کہ انا انا معنی میں میں کیا ہوتا ہے ۔ اپنا نام لو اس سے معلوم ہوا کہ مبہم بات خلاف سنت ہے ۔ بعض لوگ آتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ اس لئے آئے ہیں کہ آپ اپنا خادم بنا لیجئے مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرید بنا لیجئے ۔ مگر یہ کلام مجمل ہے کیونکہ خادم تو عام ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنے دامن میں لے لیجئے اس کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ داماد بنا لیجئے ۔ پھر تفتیش کرکے پوچھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ مطلب یہ تھا کہ مرید کر لیجئے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مجمل بات کہنی ہی نہ چاہئے ۔ بلکہ لفظ (کلام) بولے کہ مقصود پر دلالت مطابقی رکھتا ہو ۔ مجمل کلام بولنا تہزیب نہیں تعزیب ہے ۔ میں تو آداب المعاشرت میں سب لکھ چکا ہوں ۔ اس کو ہر شخص کم از کم ایک بار تو دیکھ لے ۔ اس سب کتاب کا حاصل یہ ہے کہ آپس میں ایسا عملدر آمد چاہئے کہ کسی کو اپنی حرکت سے تکلیف نہ ہو ۔ بہشت آنجا کہ آزارے نباشد ٭ کسے رابا کسے کارے نباشد واقعہ : ایک خط آیا مرسل خط نے حضرت سے اپنے وعظ کہنے کے متعلق دریافت کیا تھا کہ میں وعظ کہوں ۔ جواب اس کا تحریر اور ملفوظ مزکورہ ذیل فرمایا ۔ ارشاد : شیخ وہ ہے کہ مصلح ہو نرا صالح نہ ہو یہ کافی نہیں ہے ولی کے لئے صالح ہونے کی ضرورت ہے مصلح ہو یانہ ہو ۔ اور شیخ اور ولی ہونے کے لئے دونوں کی جمع ہونے کی ضرورت ہے کہ صالح بھی ہو اور مصلح بھی ہو۔ بعض لوگوں کی غرض وعظ کہنے سے طلب عزت ہوتی ہے کہ لوگوں کی نظر میں ہم بڑے شمار ہوں اور یہ رہزن طریق ہے طالب کی تو یہ حالت ہونی چاہئے کہ اگر اس کے جوتیاں بھی لگیں تو کچھ پرواہ نہ ہو اس کے لئے بھی تیار ہے البتہ خدا کی جانب سے عزت ملنا یہ