ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ہوں کیا مجھ سے غلطی نہیں ہوتی ۔ اور اپنی غلطی کو تو میں قبول کرتا ہوں مگر تعلق ہو ویسا عنوان ہونا چاہئے ۔ دیکھئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کافر تھے مگر ابراہیم نے ان کو نصیحت کرنے میں کیسا ادب ملحوظ رکھا اذ قال لابیھ یا ابت الخ جہاد میں دیکھئے باپ کا کتنا ادب رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کافر باپ مسلمان بیٹے کے مقابلہ میں آئے تو اس کو کسی طرح مقابلہ میں آئے تو اس کو کسی طرح مقابلہ سے ٹل جانا چاہئے ۔ اور بیٹے کو یہ حکم ہے کہ اگر نصیحت کرو تو نہایت نرمی سے سمجھاؤ اور زبان سے کہو تو حقوق اس کے ملحوظ رکھو ۔ مولوی محمد رشید صاحب کانپوری ایک دفعہ یہاں قیام کئے ہوئے تھے ۔ اور مجھے روپیہ کے پیسوں کی ضرورت تھی مجھ کو ایک شخص نے مسجد میں پیسے دئیے میں نے روپیہ کی عوض کے لئے ۔ مولوی صاحب نے نہایت ادب اور نرمی اور اچھے عنوان سے کہا کہ یہ بیع صرف ہے اور مسجد میں بیع جائز نہیں ۔ میں نے اس کو مان لیا اور ان کی بات کو قبول کرلیا اور میں نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ حق سے برا ماننا تکبر ہے میں تو غلطی کو قبول کرلیتا ہوں ۔ اس شخص نے جو میری بابت یہ خیال کیا تھا کہ کپڑا دینے والے کو روٹی کھلائی اور مجھ کو نہ کھلائی ۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ روٹی کھلانے کا مبنی کپڑا دینا تھا ۔ اس نے کیسی یقینی حکم لگادیا ۔ صرف احتمال پر حکم لگا دینا اس کو کہاں درست تھا ۔ یہاں خود غلطی کا تحقق نہیں ہوا ۔ ایسے موقعہ پر اس کی تاویل کرنی چاہئے تھی یوں سمجھتا کہ میری سمجھ میں نہیں آیا صرف احتمال پر حکم کیسا ۔ صرف محتمل امر پر اعتراض کہاں جائز ہے تاوقتیکہ درجہ یقین کو نہ پہنچ جائے اور یقین میں بھی ادب کا لحاظ چاہیے البتہ حدیث افک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مربی کو تربیت کے لیے احتمال پر بھی باز پرس جائز ہے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ سے پوچھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تربیت میں احتمال پر یوں کہد ے کہ تم کو سوازک معلوم ہوتا ہے مگر دوسرے شخص کو درست نہیں اور بے تمیزی ہے ۔ چنانچہ ایک طبیب مظفر نگر میں ائے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کے گھر میں تکلیف کس موقعہ پر ہے میں نے ان کو برا بھلا کہا کہ آپ کو یہ پوچھتے ہوئے شرم نہیں آتی ۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ طبیب ہیں میں نے کہا کہ ان سے رجوع کیا جاتا تو ان کو حق تھا پوچھنے کا اس وقت پوچھنے کی غایت کیا ہے ۔ میں نے ان کو بڑا لتاڑا ۔ شیخ سعدی کو تکلیف تھی ان کے استاد یہ تو پوچھتے کہ کیا حال ہے مگر یہ بھی نہیں پوچھا کہاں تکیلف ہے ۔ اسی طرح معالج روحانی کو احتمال پر بھی تفتیش جائز ہے ۔ چنانچہ ایک شخص میرے