ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
واقعہ : ایک بوڑھے شخص آئے اور حضرت سے عرض کیا کہ مجھ کو خرچ کی ضرورت ہے ۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں فلانے کا مرید ہوں ۔ اور حضرت کی زیارت کو آیا ہوں ۔ ارشاد : کسی بزرگ کی طرف نسبت کر کے ان کو کیوں بدنام کرتے ہو خواہ مخواہ ان کی ذلت کرنی کہ فلانے مرید مانگتے پھرتے ہیں ۔ اگر حاجت تھی تو ویسے ہی سوال کرتے ۔ حضرت کرنی فرمایا کہ اگر ایسی باتوں پر سکوت کرو تو خوش اخلاق اگر غلطی پر مطلع کرو توبداخلاق ۔ میں تو کہتا ہوں کہ جب ہم لوگوں سے دین میں استفادہ کرتے ہوتو اگر دنیا میں کرلو تو کچھ حرج نہیں مگر تلبیس سے کیا فائدہ کہ آئے بھیک مانگنے اور کہتے ہیں کہ زیارت کرنے آیا ہوں پھر کہتے ہوکہ خرچ نہیں تو اس حالت میں کہ استطاعت نہیں زیارت کے لئے آنا کہاں جائز ہے ۔ دیکھو کہ حج جو رکن اسلام ہے وہ بلا استطاعت جائز نہیں زیارت تو کیا جائز ہوتی ہے ۔ پھر ایسے لوگوں کے متعلق مضمون بیان کیا کہ بعض لوگ حج کو جاتے ہیں اور بے فکر پھرتے رہتے ہیں ۔ لوگ تو مصیبت سے کھانا پکائیں اور وہ جا کھڑے ہوتے ہیں ۔ ایک دو ہوتو کوئی دے بھی دے اور تعریف یہ کہ عربی بولنے لگتے ہیں یا لقمہ جب تک دیں گے نہیں ٹلیں گے نہیں یہ کہاں جائز ہے کہ دوسروں کو تکلیف دیں ۔ حضرت مولانا گنگوہی نے اچھا طرز اختیار کر رکھا تھا ۔ حکمت کا طرز تھا ۔ جو لوگ بچھونا وغیرہ ساتھ نہیں لاتے تھے اس کا بندوبست نہیں فرماتے تھے ۔ باقی خصوصیت کی اور بات تھی ۔ مولانا نے ایک دفعہ ایک خادم سے فرمایا کہ ایک شخص گاؤں کا ہے دیکھو تو اس کو مناسب جگہ مل گئی یا نہیں خادم نے واپس آکر عرض کیا کہ جگہ مل گئی اور میں نے کپڑے کو بھی پوچھ لیا ۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں پوچھا کیا کپڑا میرے ذمہ ہے ۔ اور فرمایا کہ بات کو بڑھایا مت کرو ۔ ایک دفعہ حضرت مولانا محمد قاسم کے یہاں کے مہمان زیادہ آگئے آپ نے عشاء کے وقت مہمانوں کے لئے نمازیوں سے رضائیاں لے لیں ۔ اس واسطے کہ لوگوں کے پاس عادتا زائد کپڑا گھر میں ہوتا ہے ہی ۔ اور اپنی رضائی بھی کسی مہمان کو دیدی ۔ جب رات کو سردی ہوگئی تو مولانا گنگوی ہی سے رضائی اپنے لئے طلب فرمانے لگے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ میں تو نہیں دیتا تم نے اپنی رضائی کیوں دیدی ۔ اور فرمایا کہ جن کو کپڑا نہیں ملا وہ وضو کرکے بیٹھ جائیں ۔ اور ذکر کریں اس لئے کہ بیداری میں جاڑہ کم لگتا ہے ۔ اور فرمایا کہ کیا آنے والوں کو نظر نہیں آتا تھا کہ کپڑے کی ضرورت ہوگی ۔ اسی