ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کی بات نہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ مورد اس کا خاص ہے مگر الفاظ عام ہیں اگر عموم الفاظ کا ایسا اعتبار کیا جائے ۔ اس کو کسی قید سے مقید نہ کیا جائے تو اس کا قائل ہونا پڑیگا ۔ کہ سفر میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں ۔ بلکہ بری بات ہے ۔ حالانکہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ روزہ رکھنا افضل ہے ۔ گو افطار بھی جائز ہے تو اب اس صورت میں اس نص پر اشکال لازم آئے گا ۔ اس اشکال کے رفع کرنے کے لئے ضرور اس کا قائل ہونا پڑے گا ۔ کہ اس عموم کی کوئی حد ضرور ہے عموم علی الاطلاق نہیں ۔ اور وہ عموم محدود یہ ہے کہ مراد متکلم سے متجاوز نہ ہو ۔ ب یہاں قرائن میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ قرائن سے متکلم کا ارادہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس کا ارادہ اتنے عموم کا ہے ۔ چنانچہ اس حدیث میں بھی قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسولﷺ کی مراد یہ ہے کہ اگر ایسی حالت ہونے کا احتمال ہو تو روزہ نہ رکھنا چا ہئے اور اگر کوئی کہے کہ تخصیص کے بعد عموم کہاں رہا تو میں کہتا ہوں کہ عموم اس طرح رہا کہ روزہ رکھنا اسی شخص کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ بلکہ جس کی بھی ایسی حالت ہوجائے تو وہ روزہ نہ رکھے خواہ کوئی ہو پس جب یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ عموم سے مراد وہ عموم ہے کہ مراد متکلم کی ہو ۔ علی الاطلاق نہیں تو آیت کے قرائن مقامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ غیرماانزل اللہ کو مستحسن سمجھ کر اس ہر فیصلہ کرتے تھے تو جو شخص ایسا کرے جیسا وہ کرتے تھے وہ بیشک اس وعید میں داخل ہے اور اب جولوگ اس بلا میں مبتلا ہیں وہ مستحسن سمجھ کر نہیں کرتے ہیں اس لئے یہ وعید ان کو شامل نہ ہوگی ۔ گو یہ فعل ان کا برا ہو مگر اس وعید کفر سے توخارج ہے اب رہی یہ بات کہ جو شخص ایسا کرے وہ تو کافر ہوگا ۔ پھر ظالم اور فاسق کیوں فرمایا ۔ بات یہ ہے کہ اوپر گزر چکا کہ یہ قرآن شریف کی اصطلاح ہے کہ ظالم اور فاسق سے مراد کافر ہوتا ہے اصل اصطلاح تو یہی ہے ۔ ہاں اگر کہیں قرینہ قوی خلاف کا ہو تو یہ مراد نہ ہوگا ۔ جیسے حضرت آدم کے بارہ میں فتکونا من الظمین ۔ یہاں قرینہ موجود ہے کہ فسق اصطلاح بھی مراد نہیں اب اس کی مثال لیجئے جہاں عموم الفاظ کے ساتھ ارادہ متکلم میں بھی تخصیص نہیں ۔ جیسے لعان کہ وہ واقعہ خاص صحابی کو پیش آیا تھا ۔ ان کے قصہ میں لعان نازل ہوا ۔ مگر بلا تخصیص ہر شخص کو عام ہے جو بھی تہمت لگائے وہاں اللہ تعالٰی کی یہی مراد ہے کہ بالکل عموم ہو بہرحال اس قاعدہ کو تو سب مانتے ہیں اور سب کی زبان زد ہوگیا ہے کہ عموم الفاظ کا اعتبار ہے خصوص مورد کا اعتبار نہیں ۔ کسی اہل علم نے اس قاعدہ کا رد نہیں کیا نہ رد کرنے کی بات ہے ۔ مگر عموم میں ایک حد لگاتے ہیں اور دوسرے لوگ حد نہیں لگاتے ۔ مگر کہیں نہ کہیں ان کو بھی اس طرف مضطرب ہونا پڑتا ہے ۔ باقی یہ بات کہ جن سزاؤں کا اس زمانہ میں حکم