ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
دیا جاتا ہے ۔ ان کا حکم دینا گو اس وعید میں داخل نہ ہو ۔ مگر معصیت تو ضرور ہے تو اس میں کوئی گنجائش ہو سکتی ہے یا نہیں ۔ سو بات یہ ہے کہ دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ احکام ما انزل اللہ کے منافی تو نہیں ہیں تفصیل اس کی یہ ہے کہ مثلا کسی موقعہ میں مقصود حد ہے مگر اس پر حاکم کی طرف سے اختیار نہ ہو ہونے کے سبب قدرت نہیں ۔ پس اس کی جگہ تعزیر اگر مقرر کی ہے تو تعزیر مقصود میں حد کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کے مناسب ہے ۔ اس لئے کہ غرض اس حد اور تعزیر کی ایک ہی ہے ۔ اور وہ زجر ہے تو اس اعتبار سے اس میں حکم شرع کی مزاحمت نہیں ہوتی ۔ اور اگر کوئی قانون شرع کے مزاحم ہو جیسے موروثی کا قانون ہے صاحب شریعت تو کہتے ہیں کہ یہ صاحب حق کا حق ہے اور حاکم کہتا ہے کہ حق نہیں ہے ۔ پس اس میں مزاحمت ہے شریعت کیہ سو یہ کسی طرح درست ہی نہیں میں نے ایک تعلیم یافتہ کے سامنے یہ تقریر بیان کی تو اس کی تسلی ہوگئی میں فتوی تو نہیں دیتا ۔ مگر اس وقت مسلمانوں کے لئے مناسب ہے کہ وہ ایسی حکومتیں قبول کر لی کریں ۔ اور یہ اس قاعدہ میں تو داخل ہے کہ اشد المفسدتین کے رفع کرنے کے لئے اخف المفسدتین کو اختیار کر لیا جاتا ہے اور ہے تو یہ بھی برا ۔ مگر بہ نسبت دوسرے مفسدہ کے پھر اخف ہے اور وہ مفسد اشد یہ ہے کہ ہماری قوم بالکلیہ ہی دوسروں سے مغلوب نہ ہو جائے کیونکہ اگر ہم بھی حکم ہوں گے تو ہم پر ظلم کم ہوگا پس اس نیت سے اگر عہدہ لے لے تو مصلحت ہے مگر میں فتوی نہیں دیتا ۔ فتوی دے کر کون تختہ مشق بنے ۔ اس مصلحت کی ایک نظیر بیان کرتا ہوں پورب کے بعض دیہات کی نسبت معلوم ہوا کہ وہاں بہت سے مسلمان آریہ ہونے والے ہیں ۔ چنانچہ بہت سے علماء وہاں گئے تھے میں بھی گیا تھا وہاں ایک مسلمان شخص تھا ادھار سنگھ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم آریہ بنو گے تو اپنے شبہات دور کر لو ۔ کہنے لگا کہ آریہ کاہے نبت ہم تو تاجیہ ( تعزیہ ) بناوت ہیں ۔ میں نے کہا کہ ہاں خوب بنایا کرو تعزیہ ۔ اس کو مت چھوڑنا ۔ سو اس میں میں نے اس کو بدعت کی اجزت نہیں دی ۔ بلکہ کفر سے بچانا چاہا اخف المفسدتین کو گوارا کر لیا ۔ کیونکہ آریہ بننا تو کفر ہے اور یہ بدعت ہے جو اس سے اخف ہے ۔ اب کوئی کوڑ مغز اس سے یوں سمجھنے لگے کہ لو صاحب تعزیہ بنانے کی اجازت دیدی سو میری یہ غرض نہ تھی اسی وجہ سے میں تختہ مشق بننے کے لئے فتوی نہیں دیتا میں نے اپنی رائے بیان کر دی ۔ میں نے ایک جگہ بیان کیا تھا کہ رشوت لینا گناہ ہے ۔ خیر اگر کم ہمتی سے ضرورت ہی سمجھتے ہو تو لو ۔ مگر برا تو سمجھو اور اکل حلال کی فکر کرو کوشش میں