ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
حاجت کے وقت منتفع ہونا چاہئے ۔ اس سے خدا تعالٰٰی کی نعمت کا مشاہدہ ہوتا ہے اور خواہ مخواہ مصیبت میں پڑنے سے عجب پیدا ہوجاتا ہے ۔ آدمی یوں سمجھنے لگتا ہے کہ ہم نے اتنا کچھ کیا اور اس کے مقابلہ میں ملا کر کچھ بھی نہیں ہم تو اس سے زیادہ کے مستحق تھے اور مصیبت میں نہ پڑنے سے آدمی یوں سمجھتا ہے کہ ہم بھی کچھ نہیں کرتے اور یہ مل رہا ہے یہ مل رہا ہے (پھر فرمایا ) اس وقت میں طاقت سے زیادہ کام کرنا اور مصیبت میں پڑنا اچھا نہیں ہے اور اب وہ قوی نہیں رہے ۔ میں نے بعض دوستوں کو دیکھا ہے کہ مجاہدہ میں معدے میں بیس ہوگیا کھانا بند ہوگیا ۔ جو کبھی کھایا دست جاری ہوگئے آخر مرگئے اور ان کو یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ اے اللہ اگر اب کی بار اچھا ہوگیا تو پھر ایسا نہ کروں گا ۔ یعنی اتنی مشقت نہ کروں گا ۔ البتہ جو مشقت واجب ہے اس کا کرنا ضروری ہے اس میں خدائے تعالی کی مدد اور اعانت ہوتی ہے دیکھئے قتال میں جان دینے سے زیادہ دشوار کیا چیز ہوگئی ۔ مگر اللہ میاں اعانت کرتے ہیں دیکھئے تو کیسی خوشی سے جان دیتے ہیں ۔ بعض لوگ اس قدر جاگتے ہیں کہ جاگتے جاگتے دماغ میں یبوست ہوگئی ۔ حافظہ خراب ہوگیا ۔ بس کام سے جاتے رہے ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ بحالت طالب علمی سہولت سے کام کرتے تھے وہ پڑھ کر مدرس ہوگئے ۔ اور جو اول سے مشقت میں پڑگئے تھے وہ آئندہ کسی کام کے نہ رہے ان کا پڑھنا بھی رہ گیا ۔ بس اعتدال چاہیے چنانچہ حدیث میں ہے ۔ علیکم من الاعمال ماتطیقون ۔ کہ تم اتنے اعمال کرو جتنی کہ تم میں طاقت ہے اس بعد فرمایا ۔ ارشاد : لوگوں کو اس کا اہتمام تو زیادہ ہے کہ نوافل بہت سے پڑھیں وظائف بہت سے گھوٹیں مگر اس کا اہتمام نہیں کہ معصیت نہ ہو ۔ حالت یہ ہے کہ نہ صغیرہ سے پرہیز ہے نہ کبیرہ سے نہ ظاہر درست ہے نہ باطن حالانکہ حدیث میں ورع کی بڑی تاکید ہے ۔ ورع یہ ہے کہ معاصی سے بچے ۔ آج کل معاصی کے ترک کا اہتمام بالکل ہی نہیں ۔ کبر ہوگا تو اس کہ پراوہ نہیں غیبت ہوگی اس کی پرواہ نہیں چندہ کی تحریک میں جبر ہوگا ۔ اس کی پہلی پرواہ نہیں علی ہذا فقط اس کو دین سمجھتے ہیں کہ بس نفلیں پڑھ لیں ۔ میں تو کہتا ہوں کہ معاصی سے بچو یہ ہے بڑی چیز اور اس کی ایک وجہ ہے یعنی نفس جو ورع کی طرف نہیں آتا اور نوافل وغیرہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ