ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
دریافت فرمایا کہ تم بھی چلو گے ۔ آپ نے صاف کہدیا کہ میں نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ ہندوستان میں منع کرتا ہوں تو جانے سے کیا اثر ہوگا ۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ مولانا میں جانے سے اتناخوش نہ ہوتا جتنا نہ جانے سے خوش ہوا۔ سید صاحب کی ایک دفعہ ایک رکعت فوت ہوگئی تھی ۔ اس پر مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم نے لتاڑا کہ آج کل کے مقتدا ایسے ہیں کہ بیویوں کی بغل میں لیٹ کر رکعت فوت کرتے ہیں۔ مگر اس پر بلکل برا نہیں مانا ۔ سید صاحب نے مولانا عبدالحئی صاحب سے کہد یا تھا کہ جو بات مجھ سے خلاف دیکھو ذرا فورا کہدینا ۔ اس پر یہ جواب دیا کہ جس روز آپ حق پر نہ ہوں گے میں آپ کے ساتھ نظر ہی نہ آؤں گا ۔ اور جب تک میں ساتھ ہوں آپ سمجھئے کہ حق پر ہوں جن حضرت کو ہم نے دیکھا ہے اور اب انہیں ہیں ۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔ حریفاں باد ہا خورد ندو رفتند ٭ تہی خمخا نہا کر وند در فتند مجھے یہ کہتے ہوئے غیرت آتی ہے کہ مجھ میں عیب نہیں بلکہ اگر کوئی میری طرف داری کرتا ہے تو میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بعض اشخاص گالیاں دیتے ہیں جس کی برداشت ہم سے نہیں ہوتی میں نے کہا کہ اس کا علاج یہ ہے ۔ اذا سمعتم بآیات اللہ یکفر بھا ویستھزا بھا فلا تقعدوا معھم اور آج کل یہ طرفداری روافض کی سی ہے ۔ طرفداری کی آج کل یہ حالت ہوگئی ہے کہ اس سے فرقہ بندیاں ہوجاتی ہیں جو نہایت مضر ہے اس کے بعد ان صاحب سے جو مراد آباد تشریف لائے تھے معلق وعدہ فرمالیا وہ یہ کہ اگر کوئی مانع نہ ہوا توحاضر ہوجاؤں گا ۔ اور یہ فرمایا کہ واعظ تجویز فرمالجیئے گاتا کہ اگر میں نہ آسکوں تو کام نہ رکے اور یہ فرمایا کہ آزادی سے تو بیان نہ ہوگا ۔ اس صورت میںمیں عوام کو لطف آنے ذمہ دار نہیں ہوں پھر جب وہ صاحب ریل پرروانہ ہوگئے تو حضرت نے حاضرین کے روبرو فرمایا کہ جب لوگ اس طرز سے وعظ سنیں گے خود ہی کہدیں گے کہ ہم نے بلا کر پیسہ ہی برباد کئے ۔ البتہ نہ بھون میں وعظ کا پہلا ہی طریقہ رہے گا۔ واقعہ : ایک صاحب نے ہدیہ ایک جوڑہ جوتہ کا بھیجا تھا جوپاؤں میں تنگ ٰآیا ۔ ان کو لکھ دیا گیا ۔ انہوں نےلکھ دیا کہ وہ کسی کودے دیجئے حضرت نے اس نے لکھا کہ میں کسی کو دیکر آپ کا احسان لوں کیا ضرورت ہے پھر انہوں نے دوسرا جوڑا بھیجا کہ وہ بھی تنگ تھا اگرچہ پہلے سے کم ۔ اس پر جواب تحریر فرمایا ۔