ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
آئی مگر ان کے سمجھانے کو میں نے کہا کہ بڑی دور جا سفر ہے کبھی راستے میں ضائع ہوجائے اس لئے میں لینا نہیں چاہتا ۔ میں نے اتنا بھی گوارا نہیں کیا کہ خود لیجاؤں ۔ چنانچہ انہوں نے میرے سامنے بیمہ بنوایا بھیج دیا ۔ دوامی چندہ اب تک ہے میں تو کہتا ہوں کہ جیسے امراء سے کہنے کیلئے موقعہ کے منتظر رہتے ہیں دیکھتے ہیں کہ میاں کا مزاج اس وقت کیسا ہے آیا کہنے کا موقعہ یا نہیں ان کا انتظار کیوں کرے اپنے محبوب حقیقی سے کیوں نہ کہے ۔ کسی رئیس کا منہ کیوں دیکھے محبوب حقیقی کا منہ کیوں نہ دیکھے غیرت بھی کوئی چیز ہے ۔ اگر کوئی ہماری تحریک سے اور دباؤ ڈالنے سے امداد کرے تو گویا اس کت مقصود ہم ہوئے پھر خلوص کہاں رہا ۔ البتہ بعض لوگ ایسے مزاق کے بھی ہیں کہ ان سے کہہ بھی دیں تو بھی حرج نہیں ۔ چنانچہ ایک مرتبہ تھانہ بھون کی جامع مسجد کے چندہ کی تحریک کی گئی ۔ قریب موضع ہے وہاں ایک رئیس ہیں وہ بھی تھے انہوں نے دیا بھی اور یہ بھی کہا کہ ایسے موقعوں پر ہمیں ضرور اطلاع دیدیا کیجئے پھر کہا کہ میں تاکید کرتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر ہمیں بھول نہ جائیے ہمیں ضرور شریک کرلیا کیجئے تو ایسے مزاق کے لوگ بھی ہیں سو ایسی جگہ کہنے میں کچھ حرج نہیں کیونکہ ان کی خود درخواست ہے ۔ ایک ہمارے ہم وطن ہیں بھوپال ہیں انہوں نے خود استدعا کی کہ مدرسہ کیلئے مجھ سے بھی کچھ لیا کیجئے بڑی آرزو ظاہر کی مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں کثیر التعلقات ہوں اگر خط سے یاد ہانی کردیا کیجئے تو اچھا ہو شاید ویسے بھول جاؤں میں نے کہا کہ اچھا مگر ایک وعدہ کیجئے کہ جب کبھی طبیعت پر گرانی ہوتو بے تکلف موقوف کر دیجئے ۔ میہں نے ان سے قسم لی ۔ اور میں نے کہا کہ اب میں خط بھیج دیا کروں گا ۔ چنانچہ میں خط بھیج دیا کرتا ۔ پھر ایک دفعہ انہوں نے لکھا کہ اب ہمیں گرانی ہے اس لئے موقوف کرتا ہوں ۔ بس موقوف کردیا ۔ انہوں نے بے تکلف لکھ دیا ۔ جو ایسے مخلص شخص ہوں تو ان کو لکھنے میں اور ان سے کہنے میں کوئی ھرج نہیں ۔ مگر دیکھ لیجئے کہ اسے آدمی کتنے ہیں ہزاروں میں ایک دو نکلیں گے ایک اور قصہ یاد آیا ۔ وہ کہ جامع مسجد کیرا نہ کا مقدمہ تھا نالش کے لئے بڑے چندہ کی ضرورت تھی ۔ چندہ جمع کرنے کو ایک عہدیدار ایک گاؤں میں پہنچے ان کے ساتھ اور بڑے بڑے لوگ بھی تھے ۔