ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ثابت ہوئی ہے اگر یہ صورت آسان ہے اور قابل اختیار کرنے کے ہے تو اس کو رکھو اور اگر کوئی دوسری صورت ہے تمہاری نزدیک تمہیں اختیار ہے اس کے بعد کوئی صاحب اس کے منتظر نہ رہیں گے کہ ان سے چندہ مانگا جائے گا ۔ اور اگر یہی آسان صورت ہے جس کو اختیار کر رکھا ہے اور یہ ٹوٹ گئی تو مدرسہ ٹوٹنے کا وبال تمہاری گردن پر ہوگا ۔ یہ تو آخرت کا ضرر اور دنیا کا ضرر یہ کہ صورت نہ رہی تو علماء فارغ نہ رہیں گے وہ کوئی اور شغل کرلیں گے ۔ تعلیم دین کی نہ کرسکیں گے جس کا انجام تمہاری نسلوں کے لئے یہ ہوگا کہ وہ یہودی ہو جائیں گے یا نصرانی ہو جائیں گے ۔ بس اپنی نسلوں کا نقصان دیکھ لو کہ کیا کچھ اس کو دیکھ کر ہمیں تحریک کی ضرورت نہیں کیونکہ کام تو تمہارا ۔ اور بھیک مانگیں ہم ہمیں کیا غرض پڑی ہے میں نے جو یہ کہا تو اس جلسہ میں ایک شخص نے منکر اور مخالف تھے علماء کے اور علماء کی طرف سے بدظن تھے وہ دس روپے مدرسہ میں دینے کو لائے تھے یہ سن کر انہوں نے چالیس روپے کسی سے قرض لے کر کل پچاس روپے دئیے ۔ اور اس کے بعد باہر آکر کہا کہ واللہ آج میرا وسوسہ دور ہوا میں تو یہ سمجھئے ہوئے تھا ۔ کہ یہ سب باتیں علماء نے اپنے کھانے کمانے کو کر رکھی ہیں ۔ اب میں سمجھاہوں کہ یہ لوگ کام کررہے ہیں ( اس کے بعد حضرت والا نے حاضرین سے فرمایا ) چاپلوسی نے ناس کردیا ہے دین کا ۔ بس یوں جی چاہتا ہے کہ دین کی عزت میں فرق نہ ہو اس کے بعد حضرت نے فرمایا میں ڈھا کہ گیا تھا ۔ اپنے خاص مدارس کے مہتمم صاحبوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہاں چندہ کی تحریک کرنا ۔ میں نے دل کہ میں ڈھاکہ جاکر کیا ڈھاک کے پتے مانگوں گا ( یہ فقرہ مناسب حال بطور ظرافت فرمایا ) میں نے جاکر نواب صاحب سے اس بارہ میں خود کچھ نہ کہا ۔ انہوں نے ایک دفعہ ہی پوچھا کہ ہمارے یہاں مدرسہ دیوبند اور مدرسہ سہارنپور سے سالانہ روئیدار آتی ہے ۔ یہ مدرسہ کیسے ہیں میں نے ان سے کہا میں اور زیادہ نہیں کہنا چاہتا صرف اتنا کہتا ہوں کہ یہ مدرسے ایسے ہیں جیسا کہ مدارس دینیہ کو ہونا چاہئے ۔ بس اس کہنے کا اثر ہوگیا ۔ انہوں نے دوامی چندہ بھی دیا اور اس وقت بھی دیا ۔ حضرت والا نے حاضرین سے فرمایا ۔ ارشاد : خدائے تعالٰٰی حامی اوت مدد گار ہے کسی کی کیا پروا کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ نواب صاحب مدرسہ سہارنپور دیوبند کے لئے مجھ کو دینے لگے مجھ کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بھی عار