ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
واقعہ : ایک صاحب کا خط ڈاک میں آیا تھا ۔ جس میں ایک اشتہار بھی نکلا ۔ مشتہر دو شخص تھے اہل شہر میں سے کوئی واعظ صاحب ان کے شہر میں آئے ہوئے تھے ان کے وعظ کا اشتہار تھا ۔ اسی اشتہار میں ایک تحریر واعظ صاحب کی طرف سے بھی تھی جس میں اپنا تلمز بڑے بڑے حضرات سے ظاہر کیا تھا جیسے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی اس کے بعد لوگوں سے سوال بھی تھا کہ میرے ساتھ سلوک کریں میری خدمت کریں جو خوشامدی الفاظ بھی لکھے تھے ۔ گویا وعظ کیساتھ سوال بھی تھا ۔ اور جو کچھ ظاہر کیا تھا اس پر قسم بھی کھائی تھی ۔ چونکہ ایسے حضرات سے تلمذ ظاہر کرنا اور سوال بھی کرنا نہایت ناز یبابات ہے ۔ اس لئے حضرت والا نے اس کے متعلق فرمایا : ارشاد : بتلائے کیا اثر ہوا ایسے لوگوں کا ۔ لوگ اہل دنیا کی نظر میں علماء کو حقیر بناتے ہیں کوئی وقعت نہیں کرتا ایسی باتوں سے میں کہتا ہوں کہ اگر کمال ہے تو کمال کا خلاصہ ہے غیرت ۔ صاحب کمال اگر مر بھی جائے تو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھلائے گا ۔ اگر واقعہ ایسا ہی ہو جیسے لکھا ہے تو کبھی ایسا شخص ہاتھ نہیں پھیلائے گا ۔ اور علمی کمال تو بڑی چیز ہے بڑھئی کا پیشہ ہے اس میں بھی جسے کمال ہوتا ہے اس کی یہ حالت ہوتی ہے اگر کوئی شخص بے مانگے بھی پیش کرتا ہے تو اس سے بھی شرماتا ہے ۔ لے تو لیتا ہے مگر دل کھلا ہو نہیں ہوتا ہے ۔ دل کھل جانا لینے میں اور مانگنے میں بڑی بے غیرتی کی بات ہے اور جس سے دل کھلا اور اس میں اتفاق سے ہوجائے ناکامی تب تو ساری عمر بھی نہیں بھولتا ۔ ایک جگہ دھوکہ اٹھانے پر اتنی شرمندگی ہوتی ہے کہ پھر زبان بھی نہیں کھلتی ۔ اور ایسی ناکامی کا اثر خود اس شخص پر بھی بہت پڑتا ہے جس سے سوال کیا ہے ۔ تو جس سے بالذات اثر ہو اس کا کیا حال ہوگا ۔ غرض کہ جس کا دل کھلا ہو نہ ہوتو اس کو ایک دفعہ کی ذلت ساری عمر زبان کو اٹھنے نہیں دیتی ۔ ( اس کے بعد حضرت نے فرمایا واعظ صاحب کے بارہ میں ) اگر یہ خاص طور پر کسی کو خط لکھتے ( اشتہار میں طبع نہ کراتے تو اس کا کچھ اثر بھی ہوتا ۔ اشتہار سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سوال ان کا پیشہ ہے ۔ اشتہار طبع کرانے میں تو ہر شخص کو یوں خیال ہوتا ہے کہ اشتہار ہزاروں کت ہاتھ میں پہنچا ہوگا ۔ پھر ہمیں دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس کے بعد حضرت