ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
وہ یہ کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ فلاں بات نفس کی حرکت ہے اور فلاں بات شیطان کی حرکت ہے اس میں امتیاز کا کیا طریقہ ہے تو بعض اکابر نے لکھا ہے کہ شیطان کا بڑا مقصود تو صرف گناہ میں مبتلا کرنا ہے اور نفس کا زیادہ مقصود لذت کا حاصل کرنا ہے ۔ اب دیکھنا چاہئے کہ گناہ کا جو وسوسہ ہو اس کو دفع کرکے دیکھو اگر باوجود دفع کرنے کے باربار اسی گناہ کا وسوسہ ہوتا ہے تب تو نفس کی طرف سے ہے کہ وہ اس میں لذت سمجھتا ہے اس لئے بار بار وہ اسی کا تقاضا کرتا ہے ۔ اور اگر ایک وسوسہ کے دفع کرنے سے خیال دوسرے گناہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تووہ شیطان کی طرف سے ہے وجہ یہ کہ شیطان کا مقصود تو گناہ میں مبتلا کرنا ہے یہ نہ سہی اور سہی وہ نہ سہی اور سہی ۔ اس کی غرض تو مارنا ہے خواہ تھپڑ سے مارے یا گھونسے سے ، یا لاٹھی سے یا بندوق سے اور نفس کا مقصود لذت حاصل کرنا ہے اور وہ منحصر ہے اس وقت ایک خاص گناہ میں اس لئے دوسری طرف منتقل نہیں ہوتا ۔ ان باریکیوں کو عارف ہی سمجھتا ہے اسی واسطے تو حدث میں ہے جس میں ایک کلمہ فان اور دوسرا متورعا بڑھا کر کسی نے اس کو نظم کیا ہے ، فان فقیھا واحدا متورعا اشد علی الشیطان من الف عابد علوم یہ ہیں نہ کہ صرف معقول پڑھ لینا کہ ایجاب صغرٰٰٰی ہونا چاہئے اور کلیتہ کبرے یہ باتیں تو جلاہا بھی سمجھ سکتا ہے ۔ اور یہ وہ علوم ہیں کہ سوائے عارف کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ فقط ۔ واقعہ : ایک شخص کے شیر خوار بچے کا انتقال ہوگیا اس کے دادا کا خط حضرت کی خدمت میں آیا تھا کہ لڑکے کی دادی نہایت بےچین ہے اس کو یاد کرکے روتی ہے اس پر حضرت نے فرمایا : ارشاد : جیسے خدائے تعالٰی کا تعلق ذکر وفکر سے بڑھتا ہے ایسے ہی مخلوق کا تعلق بھی ذکر وفکر سے بڑھتا جاتا ہے ۔ مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ یاد کرکے اور خیال جما جما کر روتے ہیں تو اپنے ہاتھوں بلا خریدتے ہیں ۔ بعض اولیاء اللہ تو ایسے گزرے ہیں جو اولاد کے مرنے پر ہنستے ہیں ۔ گو محققین کا یہ حال نہیں اور یہ حالت کمال کی نہیں ہے کمال کی وہ حالت ہے کہ رونا ہو مگر ایک حد پر ختم ہوجائے ۔ رسول اللہ کا یہی طریقہ تھا تو آپ کے مشابہ جو حالت ہو ۔ وہی مطلوب ہوگی ۔ اب لوگ حد سے بڑھ جاتے ہیں کہ قصدا خیال لا لاکر روتے ہیں یہ حد سے بڑھی ہوئی بات ہے ۔ فقط واقعہ : پہلے ایک واقعہ بیان ہوچکا ہے اس بارہ میں کہ ایک صاحب نے رمضان شریف کے مہینے کا خرچ کھانے کا سب اہل خانقاہ کے لئے اپنے ذمہ لیا تھا اور حضرت والا نے کھانے کا انتظام فرمادیا تھا ان ہی صاحب کی یہ بھی رائے تھی کہ ان کے خرچ سے اہل خانقاہ کے لئے برف بھی