ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
اور اس کے ساتھ معاملہ درست رہے گا اس لئے کبھی بھی کوشش نہ کرنا چاہیے کہ کسی کے راز پر اطلاع ہو کیونکہ اول تو اس میں گناہ ہے دوسروں کو ایذا ہوتی ہے ۔ اور طریق میں اس کا بڑا اہتمام ہے کہ کسی کو کسی سے ایذا نہ ہو ۔ مشائخ نے تو یہاں تک مبالغہ کیا ہے راحت رسانی میں کہ اپنے شیخ کے آداب سے لکھا ہے کہ جب وہ کسی طرف مشغول ہوتو اس کو سلام بھی نہ کرے کیونکہ سلام کرنے سے اس کی توجہ اس طرف منعطف ہوجائے گی اور شاید دوسری طرف سے اس طرف متوجہ ہونا اس کے دل پر بار ہو ۔ اگر مشائخ کا قول شرعی حجت نہ ہوتو فقہاء کا قول تو شرعی حجت ہے ۔ فقہا نے بھی لکھا ہے کہ جس وقت کوئی دوسری طرف مشغول ہو یا اطاعت میں یا کسی حاجت طبعیہ میں ۔ تینوں صورتوں میں منع کیا ہے ۔ اول میں اہانت کیلئے ثانی ثالت میں حرج کے سبب بعض اوقات کھانا منہ میں ہوتا ہے اور یہ شخص اس کو اتارنا چاہتا ہے اتنے میں کسی نے کہا السلام علیکم اور طبعی بات ہے کہ جواب کا تقاضا سلام سننے کے ساتھ ہی فورا ہوتا ہے ۔ تو اگر ایسی حالت میں جواب دیا تو بعض اوقات لقمہ منہ میں اٹک جاتا ہے ۔ بس خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص مشغول ہو اس کو سلام نہ کرنا چاہئے چپکے جاکر بیٹھ جائے بس جو مصلحت صوفیا کا حاصل تھا وہی فقہاء کا حاصل ہے ۔ فقہاء نے تجربہ سے کام لیا ہے ۔ اگر کوئی صوفیاء کے قول پر عمل نہ کرے تو خیر فقہاء کے قول پر عمل کرے ۔ بعض لوگ شیخ کے پاس جاکر دوسروں کے سلام ان کو پہنچایا کرتے ہیں ۔ دوسروں کا سلام شیخ کو پہنچانا علاوہ مصلحت اخلال مشغل کے ایک اور درجہ سے بھی خلاف مصلحت ہے وہ یہ کہ طبیب کے پاس جاکر پڑوسیوں کے امراض پیش کرنا مناسب ہوتا ہے یا اپنے امراض سو وہاں تو جو وقت ملے اپنی اصلاح میں صرف کرنا چاہئے نہ کہ دوسروں کے پیاموں کے پہنچانے میں اور مراد وہ صورت ہے جب غالب شغل بھی ہو ورنہ احیانا کسی کا سلام پہنچا دینا کچھ حرج نہیں ہے ۔ واقعہ : ایک صاحب کا خط آیا لکھا تھا کہ ایک میرے ہم عمر 20 سال کی عمر ہوگی ان سے مجھ کو محبت ہوگئی اور ان کو مجھ سے اور لکھا تھا کہ جانبین سے کسی طمع نفسانی کا خیال بھی نہیں اور یہ لکھا تھا کہ وہ کچھ پابندی نماز وغیرہ کے نہ تھے میری نصیحت سے پابندی ہوگئے اور لکھا تھا کہ قرآن شریف کا ترجمہ انہوں نے مجھ سے یاد کیا ہے اور یہ صاحب اس کو حب فی اللہ سمجھتے تھے ۔