ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
اوروں کے پوچھے ہوئے مسائل کا مجھ سے کیوں اعادہ کراتے ہیں بعض اوقات مجھ پر یہ امر بار ہوتا ہے چونکہ سائل اپنی ضرورت سے سوال کرتا ہے اس لئے مجیب اس کی تطویل کوبھی گوارا کرتا ہے اور آپ اپنی ضرورت سے سوال کرتے نہیں ہیں ۔ یہ ناگوار ہوتا ہے اور ایذا ہوتی ہے مسلمان کو بلاوجہ ایذا دینا حرام ہے اور یہاں کوئی وجہ نہیں ہے ۔ آپ کو خود منصب ہے سوال کرنے کا ۔ آپ اپنی طرف سے سوال کیجئے دوسرے کے سوال کو کیوں پوچھتے ہیں اور اس کا واقعہ کیوں تحقیق کرتے ہیں ( اس کے بعد دوسرے کی طرف کان لگانے کے متعلق فرمایا کہ ۔ ایسے وقت میں ضروری بات یہ ہے کہ ادھر سے تغافل کرلینا چاہئے ۔ یعنی بہ تکلف غافل بن جائیں کہ دوسرے بھی سمجھ لیں کہ اس کو اس طرف توجہ ہی نہیں ہے غرض ادھر کان ہی نہ لگایئے راحت کی زندگی یہ ہے کہ اس طرح سے انسان زندہ رہے کہ کسی کے قلب پر اس کی طرف سے بار نہ ہو رائی برابرا بھی ۔ پھر واللہ ایسی زندگی ہوگی شعر : بہشت آنجا کہ آزارے نباشد ٭ کسے رابا کسے کارے نباشد مجھے نہایت پسند آیا ایک دنیا دار کا فعل اور ایسی بات آجکل مشائخ میں بھی نہیں وہ یہ کہ میں جب کانپور میں تھا ایک نائب تحصیلدار تھے ہمیر پور کے وہ میرے پاس آئے ان کو اپنے لڑکے کیلئے ایک مدرس کی ضرورت تھی انہوں نے مجھ سے کہا میرے یہاں ایک طالب علم تھے ۔ اور ان کو ملازمت کی ضرورت بھی تھی ۔ اس وقت وہ مجھ سے پڑھ رہے تھے میں ان سے رائے پوچھنے کیلئے عربی میں کلام کرنے لگا ۔ اس خیال سے کہ یہ تو سمجھتے نہ ہوں گے عربی زبان اور وہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے نہایت ادب سے کہا کہ میں عربی سمجھتا ہوں اگر کوئی بات علیحدہ کہنے کی ہوتو میں علیحدہ ہو جاؤں ۔ بس میں ان کے اخلاق پر عاشق ہوگیا ۔ اور ان سے کہا کہ تھی تو مخفی بات مگر آپ جیسے شخص سے اب مخفی کرنا نہیں چاہتا ۔ پھر میں نے ان کے سامنے ہی اردو میں گفتگو شروع کردی ۔ بہرحال جہاں دوباتیں کرتے ہوں وہاں سے خود اٹھ جانا چاہئے ۔ اگر اٹھے بھی نہیں تو دوسری طرف متوجہ ہوجائے ۔ تاکہ دوسروں کو معلوم ہوجائے کہ یہ شخص ہماری طرف خیال ہی نہیں کررہا ہے اور بڑی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ قصد ہوکہ معاملہ خدائے تعالٰیب کے ساتھ صحیح رہے اسی وقت ساری باتیں درست ہوسکتی ہیں اسی بارہ میں دیکھئے کہ اگر اس نے دوسرے کے راز اطلاع ہونے کی کوشش کی ۔ اور دوسرے کو اس قصد کی اطلاع نہ بھی ہوئی مگر خدائے تعالٰی کو تو اطلاع ہوگی